اکاؤنٹس کے آڈٹ پر اے جی پی اور انجینئرنگ کونسل کے مابین تنازع

اپ ڈیٹ 30 جولائ 2020
دفتر آڈیٹر جنرل پاکستان—بشکریہ ویب سائٹ
دفتر آڈیٹر جنرل پاکستان—بشکریہ ویب سائٹ

اسلام آباد: ملک کے 2 ریگولیٹری اداروں آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) اور پاکستان انجینئرنگ کونسل (پی ای سی) کے مابین انجینئرنگ ریگولیٹر کے اکاؤنٹس کے آڈٹ پر تنازع کھڑا ہوگیا۔

باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ آڈیٹر جنرل پاکستان کی جانب سے متعدد درخواستوں کے باوجود پی ای سی نے آڈٹ کے لیے اکاؤنٹ پیش نہیں کیے کہ اپنی مرضی کی نجی کمپنی سے کروائے گئے اس کے آڈٹ کی آڈیٹر جنرل کو توثیق کرنی چاہیے۔

خیال رہے کہ ایسے تمام سرکاری محکمے، ادارے، ریگولیٹرز، خودمختار اور نیم خودمختار کارپوریشنز اور کمپنیز کے جہاں عوامی پیسہ شامل ہو ان کا آڈٹ کرنا آڈیٹر جنرل پاکستان کی ذمہ داری ہے۔

مذکورہ معاملہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) میں زیر بحث آیا جہاں پی ای سی کی درخواست پر کونسل کو اس شرط پر اپنی مرضی کی کمپنی سے آڈٹ کروانے کی اجازت دے دی گئی کہ اس کی رپورٹ کی توثیق آڈیٹر جنرل پاکستان سے کروائی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان انجینئرنگ کونسل کا اپنے اکاؤنٹس تک رسائی دینے سے انکار ، آڈٹ رپورٹ

پی ای سی نے اس بات پر اتفاق کیا اور ایک نجی کمپنی سے آڈٹ کروا کر رپورٹ کو وفاقی آڈٹ کی توثیق کے لیے اے جی پی کو بھجوادیا۔

تاہم ڈائریکٹر جنرل وفاقی آڈٹ نے اسے قبول نہیں کیا اور اسے قواعد کی خلاف ورزی قرار دیا کیوں کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل ایک قانونی سرکاری تنظیم ہے جس کی سرپرست وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہے۔

چنانچہ اس کا آڈٹ اے جی پی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے جو حکومت پاکستان کے ماتحت تمام اداروں کا آڈٹ کرنے کا آئینی ادارہ ہے۔

ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تھا کہ پی ای سی کو قواعد کی پاسداری کرتے ہوئے اے جی پی کو آڈٹ کے لیے رسائی دینی ہوگی۔

مزید پڑھیں: انجینئرنگ کونسل کا ڈیم کیلئے درکار افرادی قوت پر سپریم کورٹ سے رابطہ

دلچسپ بات یہ ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کے نکات پی ای سی کے مؤقف کی تصدیق نہیں کرتے۔

درحقیقت ریکارڈ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پی ای سی نے بارہا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کو یہ شکایت کی کہ 19 فروری کو ہونے والے کمیٹی اجلاس کے نکات میں اس کی نجی طور پر آڈٹ کروانے کی درخواست کو قبول نہیں کیا گیا۔

پی ای سی نے پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کو لکھا کہ یہ معاملہ کمیٹی اجلاس میں زیر بحث آیا تھا جس میں ’متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ پی ای ای قیام پارلیمان کے ایک ایکٹ کے تحت عمل میں آیا تھا اور سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرم سے کروایا گیا آڈٹ تصدیق اور تعمیل کے لیے آڈیٹر جنرل پاکستان میں پیش کرنا چاہیے۔

چنانچہ اس فیصلے کے تحت پی ای سی نے اپنی آڈٹ رپورٹ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پاس جمع کروائی اور پی اے سی کی ہدایات پر عمل کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’سال 18-2017 میں غفلت کے باعث 423 ارب روپے کا نقصان ہوا‘

تاہم آڈٹ کے ڈائریکٹر جنرل نے پی اے سی کے فیصلے کے ’خلاف‘ پی اے سی کو آڈٹ کی اطلاع بھجوائی، کونسل نے اس بات کو تسلیم کیا کہ پی اے سی کے اجلاس کے نکات بھی واضح نہیں کرتے کہ یہ فیصلہ کمیٹی نے کیا۔

اس ضمن میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا کہنا تھا کہ اس نے بھی اجلاس کے نکات پر اعتراض اٹھائے تھے حتیٰ کہ کمیٹی کی جانب سے دوبارہ کوریجنڈم جاری ہونے کے باوجود ’پی اے سی کا اصل فیصلہ شامل نہیں کیا گیا‘۔

خیال رہے کہ 1976 میں پارلیمانی ایکٹ کے تحت ملک میں انجینئرنگ کے پیشے اور تعلیم کی ریگولرائزیشن کے لیے پی ای سی قائم کی گئی تھی۔


یہ خبر 30 جولائی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں