پیپلزپارٹی کا حکومت سے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر فوری شروع کرنے کا مطالبہ

05 اگست 2020
2017 میں مندر کی تعمیر کے لیے جگہ الاٹ کی گئی تھی—فائل فوٹو: محمد بن نوید
2017 میں مندر کی تعمیر کے لیے جگہ الاٹ کی گئی تھی—فائل فوٹو: محمد بن نوید

اسلام آباد: پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا آغاز کرے تاکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو 'ایک مناسب جواب دیا' جائے جو آج (بدھ) کو ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کے مقام پر ہندو مندر کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ مطالبہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر اور چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان مصطفیٰ نواز کھوکھر کی جانب سے جاری ایک بیان میں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 'وفاقی حکومت کو اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے راستے میں حال تمام رکاوٹوں کو فوری طور پر ہٹانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں اور آج (بدھ) کو ہی اس کے کام کا آغاز کرنا چاہیے'۔

مزید پڑھیں: سی ڈی اے نے اسلام آباد میں مندر کے مقام پر چار دیواری کی تعمیر روک دی

مصطفیٰ نواز کھوکھر جو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین بھی ہیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان کو عالمی برادری کو یہ پیغام بھیجنا چاہیے کہ ملک میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ مساوی حقوق سے مستفید ہورہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ جناح کے پاکستان کا مطالبہ ہے کہ ملک میں تمام اقلیتوں کے مذہبی حقوق کا تحفظ کیا جانا چاہیے'۔

بھارتی وزیراعظم کے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے اقدام پر تنقید کرتے ہوئے پی پی پی سینیٹر کا کہنا تھا کہ نریندی مودی ایسا کرکے 'سیکیولر بھارت کا چہرہ سیاہ کردیں' گے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد کے سیکٹر ایچ -9 / 2 میں ہندو مندر کی تعمیر پر تنازع 2 ماہ قبل اس وقت شروع ہوا تھا جبکہ کچھ مذہبی جماعتوں اور گروپس کی جانب سے منصوبے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اسلامی ریاست میں ٹیکس دہندگان کی رقم سے مندر کی تعمیر اسلام کے خلاف ہے۔

بعد ازاں گزشتہ ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے مندر کی تعمیر کے خلاف 3 ایک جیسی درخواستوں کو نمٹاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ عبادت کی جگہ کی تعمیر کے لیے ریگولیٹر جیسے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی منظوری ضروری ہے، ساتھ ہی عدالت نے مندر کے لیے پلاٹ کی الاٹمنٹ کا اعتراض مسترد کردیا تھا۔

یاد رہے کہ جنوری 2017 میں اس وقت کی حکومت نے 3.89 کینال کی زمین مندر کے لیے الاٹ کی تھی جبکہ 2018 میں اس پلاٹ کو اسلام آباد ہندو پنچایت کے حوالے کیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں یہ معاملہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی زیر بحث آیا تھا، جہاں وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے ایوان زیریں کو بتایا تھا کہ مخصوص مذہبی اسکالرز کی جانب سے اعتراضات کے بعد مندر کی سائٹ پر تعمیراتی کام روک دیا گیا ہے اور معاملے پر رائے حاصل کرنے کے لیے اسے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیج دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ مسئلہ مندر کی تعمیر کا نہیں تھا بلکہ سوال یہ اٹھایا گیا تھا کہ آیا حکومت قومی خزانے سے رقم خرچ کرسکتی ہے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: قانون پر عملدرآمد تک مندر کی تعمیر نہیں ہوسکتی، اسلام آباد ہائیکورٹ

یہاں یہ بھی مدنظر رہے کہ مصطفیٰ نواز کھوکھر کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی نے رپورٹ کیا تھا کہ بھارت کے ایودھیا کے علاقے میں وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے اس مقام پر مندر کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا جہاں 1992 میں ہجوم کی جانب سے مسجد کو شہید کردیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ بابری مسجد اس مقام پر تقریباً 500 سال تک قائم رہی تھی جب تک اسے 1992میں ہندو انتہا پنسدوں کی جانب سے شہید نہیں کردیا گیا تھا، جس کے بعد ملک بھر میں فسادات نے جنم لیا تھا اور 2 ہزار لوگ جس میں زیادہ تک مسلمان تھے وہ اس میں مارے گئے تھے، جو آزاد بھارت کی تاریخ کے بدترین مذہبی فسادات میں سے ایک ہے۔

یہ معاملہ بعد ازاں عدالت میں گیا تھا جہاں نومبر میں بھارت کی اعلیٰ عدالت نے دہائیوں سے جاری اس قانونی جنگ کا فیصلہ سناتے ہوئے جگہ کو ہندوؤں کو دیتے ہوئے مسلمانوں کو نئی مسجد کے لیے الگ مقام پر جگہ دینے کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں