توہین مذہب کے ملزم کو قتل کرنے والے نوجوان نے درخواست ضمانت واپس لے لی

اپ ڈیٹ 18 اگست 2020
مشتبہ قاتل کو کمرہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
مشتبہ قاتل کو کمرہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

پشاور: کمرہ عدالت میں مشتبہ توہین مذہب و رسالت کے ملزم کے قتل کے الزام کا سامنا کرنے والے نوجوان لڑکے نے انسداد دہشت گردی عدالت سے اپنی ضمانت کی درخواست واپس لے لی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملزم کے وکلا کا ایک پینل عدالت میں پیش ہوا اور آگاہ کیا کہ ان کے موکل ضمانت کی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے اور وہ صرف کیس کا ٹرائل جلد مکمل ہونے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

جس پر عدالت نے استغاثہ کو ہدایت دی کہ وہ حتمی چالان (چارج شیٹ) 10 دن میں جمع کروائے تاکہ ٹرائل کا آغاز ہوسکے۔

خیال رہے کہ کچھ روز قبل جووینائل (کم عمر) ملزم کی طرف سے مختلف بنیادوں پر ضمانت کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: انسداد دہشتگردی عدالت نے توہین مذہب کے ملزم کے قتل کیس کا ریکارڈ طلب کرلیا

عدالت میں دائر اس 10 صفحات پر مشتمل درخواست میں زیادہ تر قرآنی آیات اور احادیث کے حوالے دیے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ 'جو مرتد ہو وہ واجب القتل ہے'۔

اگرچہ پولیس کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جارہا کہ ملزم کی عمر 17 برس کے قریب ہے تاہم درخواست گزار کا اصرار ہے کہ وہ تقریباً ساڑھے 14 سال کا ہے اور اس معاملے میں کی گئی تفتیش جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 کی لازمی دفعات کی خلاف ورزی تھی۔

واضح رہے کہ 29 جولائی کو پشاور کی جوڈیشل کمپلیکس میں کمرہ عدالت کے اندر توہین مذہب و رسالت کے ملزم پاکستانی نژاد امریکی شہری طاہر احمد نسیم کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔

اور موقع پر ہی مشتبہ قاتل کو گرفتار کرلیا گیا تھا جو اس وقت پشاور سینٹرل جیل میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہے۔

اس قتل کی ایف آئی آر ایسٹ کنٹونمنٹ پولیس اسٹیشن میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302، انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 اور اسلحہ ایکٹ کی دفعہ 15 کے تحت درج ہوئی تھی۔

ملزم کی جانب سے شبیر حسین گیگیانی، محمد انعام یوسف زئی، بیرسٹر امیر اللہ خان، قیصر زمان خان، عبدالولی اور شکیل احمد خیل پر سمیت وکلا کے پینل نے درخواست جمع کروائی تھی۔

عدالت نے جب درخواست ضمانت پر سماعت شروع کی تو وکلا دفاع کا کہنا تھا کہ وہ اپنے موکل کے جلد ٹرائل کے خواہش مند ہیں۔

انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ درخواست ضمانت خارج کرنے کے بجائے عدالت کو استغاثہ کو ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ جلد از جلد کیس کا چالان پیش کرے۔

علاوہ ازیں سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ توہین مذہب و رسالت کے ملزم کی لاش کو 14 اگست کو پشاور میں امریکی قونصل جنرل کے حوالے کردیا گیا تھا اور یہ امریکا روانہ کردی گئی تھی۔

6 اگست کو وزارت خارجہ نے تمام رسمی شرائط کو مکمل کرنے پر طاہر احمد نسیم کی لاش کو واپس بھیجنے کے لیے تصدیق نامہ عدم اعتراض (این او سی) جاری کیا تھا۔

اسی طرح وزارت داخلہ کی جانب سے بھی ایک این او سی جاری کیا گیا تھا جس میں قرار دیا گیا تھا کہ طاہر احمد نسیم کی لاش کو امریکا نقل و حمل پر کوئی اعتراض نہیں۔

واضح رہے کہ مقتول کی الینیوس امریکا میں مقیم بیٹی سمیت اہل خانہ کے دیگر افراد نے 30 جولائی کو پشاور میں امریکی قونصل جنرل کے حق میں ایک عام پاور آف اٹارنی جاری کیا تھا تاکہ لاش لائی جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: توہین مذہب کے ملزم کو قتل کرنے والا شخص جیل منتقل

خیال رہے کہ مقتول کے خلاف 25 اپریل 2018 کو سربند تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 153 اے، 295 اے، 295 بی، 295 سی اور 298 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ان دفعات میں توہین مذہب و توہین رسالت کی دفعات شامل ہیں۔

اس مقدمے میں شکایت کنندہ نوشہرہ کا رہائشی اور اسلام آباد کے مدرسے میں پڑنے والا شخص ملک اویس تھا۔

شکایت کنندہ نے الزام لگایا تھا کہ مرنے والا شخص جھوٹے مذہبی دعوے کرتا ہے اور اس نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اسے خوابوں میں وہی نازل ہوتی ہے۔

علاوہ ازیں 4 فروری 2019 کو مقتول پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 153 اے، 295 اے اور 298 کے تحت فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ انہوں نے ان الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

بعد ازاں اسے پشاور کی سینٹرل جیل سے عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں ایک نوجوان نے فائرنگ کرکے اسے قتل کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں