عسکریت پسندوں کے علیحدہ ہونے والے دھڑے، منحرف گروہ کی کالعدم ٹی ٹی پی میں واپسی

اپ ڈیٹ 18 اگست 2020
گروہ نے ریاست پاکستان سے لڑنے کے لیے واپسی کی—فائل فوٹو: اے ایف پی
گروہ نے ریاست پاکستان سے لڑنے کے لیے واپسی کی—فائل فوٹو: اے ایف پی

پشاور: عسکریت پسندوں کے علیحدہ ہونے والے دھڑے اور منحرف گروہ پاکستانی ریاست اور اس کے گورننس نظام سے لڑنے کے لیے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں واپس آگئے۔

یہ بات تنظیم کے ترجمان نے انٹرنیٹ پر ایک پوسٹ کے ذریعے کی۔

کالعدم ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمان محمد خراسانی نے اعلان کیا کہ جماعت الاحرار کے سربراہ عمر خالد خراسانی اور اس کے اپنے محرف گروہ حزب الاحرار کے سربراہ عمر خراسانی نے اپنے گروپس ختم کردیے ہیں اور ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود المعروف ابو عاصم منصور سے بیعت لے لی ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان کی طاقتور مذاکراتی ٹیم تشکیل، پاکستان کے قریبی رہنما خان متقی ٹیم سے باہر

ترجمان نے اس ملاقات کا مقام نہیں بتایا کہ پوسٹ کے ساتھ سامنے آنے والی تصاویر میں دیکھا گیا کہ مردوں کا ایک مجمع 42 سالہ ابو عاصم منصور کا ہاتھ تھامے ہوئے ہے۔

نور ولی محسود نے پہلے افغان طالبان کے ساتھ بیعت کی ہوئی تھی لیکن بعد ازاں تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کرلی اور شرعی معاملات پر اپنے نظریے کے مطابق کام کیا۔

سال 2017 میں انہوں نے ایک کتاب انقلابی محسود لکھی جو ٹی ٹی پی کی ایک تاریخ ہے اور وہ بھی بیان کرتی ہے کہ کیوں تنظیم ناکام ہوئی جبکہ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور بے گناہوں کی ٹارگٹ کلنگ اس کی بنیادی وجوہات کے طور پر بیان کیا گیا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ٹی ٹی پی اور اب تک منحرف گروپ، جس میں دونوں احرار کے گروہ بھی شامل ہیں، وہ افغانستان کے مشرقے صوبوں ننگرہار، کنڑ اور خوست سے تعلق رکھتے ہیں۔

واضح رہے کہ مفتی نور والی مولوی فضل اللہ کے جانشین ہے جنہیں جون 2018 میں کنڑ میں ہونے والے ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں ستمبر 2019 میں امریکا نے نور ولی محسوس کو عالمی دہشگرد قرار دیا تھا جبکہ اسی سال جولائی میں ہی اقوام متحدہ نے ان کا نام پابندیوں کی کمیٹی کی فہرست میں شامل کردیا تھا۔

ٹی ٹی پی کا حصہ بننے والی جماعت الاحرار سال 2014 میں حکیم اللہ محسود کے جانشین کے معاملے پر لڑائی کے بعد الگ ہوگئی تھی، علاوہ ازیں حزب الاحرار، جماعت الاحرار کا ہی منحرف گروپ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وانا میں امن کمیٹی کی آڑ میں طالبان گروہ کی واپسی کا انکشاف

دوسری جانب اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مختلف گروہوں سے تعلق رکھنے والے 6 ہزار پاکستانی عسکریت پسند افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

پاکستان کی جانب سے بارہا افغان حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان گروہوں کے خلاف کارروائی کرے جو ملک میں انتہائی مہلک حملوں کے پیچھے ہوتے ہیں۔

سیکیورٹی حکام کا کہنا تھا کہ ان میں سے کچھ گروہ دشمن انٹیلی جنس ایجنسیز کی مدد سے پاکستان میں تخریب کاری کی سرگرمیاں کر رہے ہیں۔


یہ خبر 18 اگست 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں