کراچی: آغا خان یونیورسٹی کے محققین کی ایک تحقیق کے مطابق ملک میں حاملہ خواتین کی اموات میں سے ایک چوتھائی کی موت ہائی بلڈ پریشر سے ہوتی ہے۔

آغا خان یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی تحقیق میں ملک میں زچگی کے دوران موت اور بیماری کی ایک اہم وجہ پری ایکلیمپسیا کے بوجھ کو کم کرنے کے طریقوں کی تجویز دی گئی ہے جو دراصل حمل کے دوران ہائی بلڈ پریشر سے منسلک عارضہ ہے۔

اس تحقیق کے مطابق ملک میں حاملہ خواتین کی تمام اموات میں سے ایک چوتھائی کی موت کی وجہ ہائی بلڈ پریشر(بلند فشار خون) ہے۔

مزید پڑھیں: حاملہ خواتین میں کورونا وائرس کی بڑھتی تعداد باعثِ تشویش

تاہم اس کے باوجود عوام اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والوں میں بلڈ پریشر کی نگرانی کی اہمیت سے متعلق کم آگاہی ہے۔

تحقیق میں شامل آغا خان یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر راحت قریشی کا کہنا تھا کہ سندھی جیسی نمایاں علاقائی زبانوں میں پری ایکلیمپسیا کے لیے کوئی لفظ موجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیدائش سے متعلق دیگر پیچیدگیوں کے برعکس پری ایکلیمپسیا کی علامات آسانی سے شناخت نہیں کی جاسکتیں جو اس کی جلد تشخیص کے امکانات کو محدود کرتی ہے اور بہت سی حاملہ خواتین اس کی خطرناک پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔

دی لینسیٹ میں شائع ہونے والی تحقیق کمیونٹی-لیول انٹروینشنز فار پری ایکلیمپسیا (سی ایل آئی پی) پاکستان کے مطابق کمیونٹی ہیلتھ ورکرز خواتین میں بیماری کی سنگینی سے نمٹنے، ابتدائی علاج کی فراہمی اور صحت کی سہولت تک نقل و حمل کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔

تحقیق کے مطابق مٹیاری اور حیدرآباد میں لیڈی ہیلتھ ورکرز (ایل ایچ ڈبلیوز) نے 3 سال کے عرصے میں 35 ہزار سے زائد خواتین تک رسائی حاصل کی۔

لیڈی ہیلتھ ورکرز نے ماؤں سے پری ایکلیمپسیا سے متعلق متعدد علامات کے بارے میں پوچھا اور موقع پر ہی ان کے بلڈ پریشر اور آکسیجن کی سطح کی پیمائش کی۔

جس کے بعد یہ معلومات اسمارٹ فون پر مبنی موبائل ہیلتھ ایپلی کیشن میں داخل کی گئیں جوپری ایکلمپسیا کے شدید خطرے کا فوری جائزہ لینے کی اجازت دیتی ہے۔

اس ہیلتھ ایپلی کیشن پر انتباہ آنے کی صورت میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کو اینٹی ہائپر ٹینسو (بلند فشار خون میں کمی کے لیے) ٹیبلیٹس کی فراہمی یا میگنیشیم سلفیٹ کے ذریعے فوری علاج کی تربیت دی گئی تھی۔

انہیں حمل کے دوران قبل از پیدائش دیکھ بھال اور پیدائش کی تیاریوں کے بارے میں بھی آگاہی فراہم کی گئی ہے کہ وہ خطرات کا شکار ماؤں کو قریبی ہسپتال بھیج سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: حاملہ خواتین میں کورونا وائرس کی شدت سنگین ہونے کا امکان زیادہ   اس ٹرائل سے معلوم ہوتا ہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز اپنے گھروں میں موجود کمیونٹیز کو صحیح مشورے فراہم کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرسکتی ہیں۔

اس حوالے سے جزیہ سے پتا چلتا ہے کہ جب دیکھ بھال کرنے کے لیے کافی لیڈی ہیلتھ ورکرز موجود تھیں تو ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی اموات میں کمی آئی تھی۔

محققین نے مزید کہا کہ حمل کے دوران خطرے کو کم کرنے کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعداد زیادہ ہونی چاہیے جو قبل از پیدائش 8 دوروں کو یقینی بناسکیں۔

اس تحقیق کے نتائج حمل سے متعلقہ پیچیدگیوں کے خطرے میں کمی کے لیے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے پیدائش سے قبل باقاعدہ دیکھ بھال کی سفارشات کی تائید بھی کرتے ہیں۔   محققین نے یہ مشاہدہ بھی کیا کہ طبی سہولت مراکز میں فراہم کیے جانے والے علاج کے معیار اور اہم اشیا کی دستیابی میں بہتری کی ضرورت ہے تاکہ حمل کے دوران یا پیدائش کے فورا بعد ہی خواتین کی اموات میں کمی لائی جاسکے۔  


یہ خبر 24 اگست، 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں