ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے بانی ایلون مسک انسانوں کو سپرہیروز جیسی طاقت دینے والے حیران کن منصوبوں میں شامل ایک انوکھی ڈیوائس کا مظاہرہ 28 اگست کو کرنے والے ہیں۔

ایلون مسک کی ایک اور کمپنی نیورالنک انسانی دماغ اور کمپیوٹر کو براہ راست منسلک کرنے کی کوشش کررہی ہے اور اس ٹیکنالوجی کی آزمائش جمعہ (28 اگست) کو ہونی ہے جس میں ایک روبوٹ کو شامل کیا گیا جائے گا۔

ایلون مسک نے ٹوئٹر پر کئی پیغامات میں بتایا کہ رئیل ٹائم میں روبوٹ اور 'نیورونز فائرنگ' کا مظاہر کیا جائے گا۔

اس ٹیکنالوجی کا مقصد دماغی اور ریڑھ کی ہڈی کی انجری یا پیدائشی نقائض کے شکار افراد کو فون یا کمپیوٹر اپنے ذہن سے کنٹرول کرنے میں مدد دینا ہے۔

مگر طویل المعیاد بنیادوں پر اس ٹیکنالوجی کا مقصد ڈیجیٹل سپرانٹیلی جنس لیئر کو تشکیل دینا ہے، یعنی انسانوں کو مصنوعی ذہانت سے منسلک کردیا جائے، جو اس لیے حیران کن ہے کیونکہ ایلون مسک آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو ماضی میں انسانیت کے لیے خطرہ قرار دے چکے ہیں۔

اس کمپنی کی بنیاد 2017 میں رکھی گئی تھی اور گزشتہ سال اس نے دعویٰ کیا تھا کہ تجربات کے دوران ایک بندر اپنے دماغ سے کمپیوٹر کنٹرول کرنے کے قابل ہوگیا۔

یہ ڈیوائس 3 ہزار سے زائد الیکٹروڈز پر مبنی ہے جو انسانی بال سے بھی پتلے دھاگوں سے منسلک ہیں اور ایک ہزار دماغی نیورونز کو مانیٹر کرسکتے ہیں۔

کمپنی کی جانب سے ایک نوروسرجیکل روبوٹ کو بھی تیار کیا گیا ہے جو اس کے بقول دماغ میں ہر منٹ کے دوران 192 الیکٹروڈ داخل کرسکے گا۔

امریکا کی پٹسبرگ یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر جینیفر کولنگر نے بتایا کہ ایلون مسک جو کررہے ہیں وہ میڈیکل ٹیکنالوجی کے شعبے میں صحیح معنوں میں حیران کن ٹیکنالوجی کا اضافہ ہے۔

انہوں نے کہا 'نیورالنک کے پاس وسائل کی کمی نہیں اور سائنسدانوں سمیت دیگر ماہرین کی ٹیم ہے جو ایک مقصد کے لیے کام کررہی ہے، جو کامیابی کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے '۔

تاہم ان کا کہنا تھا 'مگر ان وسائل کے باوجود میڈیکل ڈیوائسز کی تیاری میں وقت لگتا ہے جبکہ تحفظ کو اولین ترجیح دینے کی ضرورت ہوتی ہے، تو مجھے لگتا ہے کہ اس عمل میں ان کے بتائے گئے وقت سے زیادہ طویل عرصہ لگ سکتا ہے'۔

گزشتہ سال ایلون مسک نے بتایا 'ہم یقیناً مکمل دماغی مشین انٹرفیس بنانے کی کوشش کریں گے اور اس ٹیکنالوجی کی بدولت لوگ محض سوچ کر ایک منٹ میں 40 الفاظ ٹائپ کرسکیں گے'۔

اس موقع پر انہوں نے توقع بھی ظاہر کی تھی کہ 2019 کے آخر تک ایک انسانی مریض پر اس کا تجربہ ممکن ہوسکے گا مگر بظاہر ایسا ہوا نہیں۔

خود ایلون مسک نے تسلیم کیا تھا کہ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے اس کی منظوری ملنا مشکل ہوسکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں