ارطغرل کے بعد انگین التان ایک اور تاریخ ساز شخصیت بننے کیلئے تیار

اپ ڈیٹ 24 جون 2021
انگین التان عروج رئیس کا کردار کو ادا کریں گے — اسکرین شاٹ
انگین التان عروج رئیس کا کردار کو ادا کریں گے — اسکرین شاٹ

دیریلیش ارطغرل میں مرکزی کردار ادا کرنے والے انگین التان دوزیتان کورلش عثمان کا حصہ نہیں بنے تھے۔

تاہم وہ ترکی کے چینل ٹی آر ٹی کے ایک اور تاریخی ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کریں گے جو خیرالدین باربروس کی زندگی پر مبنی ہوگا۔

اس سیریز کے بارے میں مکمل تفصیلات تو موجود نہیں مگر اس کا پہلا ٹریلر ضرور سامنے آگیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق انگین التان کو خیرالدین باربروس کے بڑے بھائی عروج رئیس کے کردار کے لیے منتخب کیا گیا جبکہ Yetkin Dikinciler İshak خیر الدین کا کردار ادا ادا کریں گے۔

اسکرین شاٹ
اسکرین شاٹ

Ulaş Tuna Astepe اور Caner Topçu بھی عروج رئیس اور خیر الدین کے دیگر 2 بھائیوں کے روپ میں جلوہ گر ہوں گے۔

یہ ڈراما ممکنہ طور پر بہت جلد نشر ہونا شروع ہوگا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اداکار کو سمندر کے حوالے سے شوق کے بارے میں جانا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ نیا تاریخی ڈراما ان کے لیے کافی پرجوش ہے۔

ارطغرل کے 5 ویں سیزن کے بعد انگین التان کافی عرصے بعد ٹی وی اسکرین پر اس ڈرامے میں نظر آئیں گے۔

اسکرین شاٹ
اسکرین شاٹ

16 ویں صدی کے خیرالدین باربروس اسلامی تاریخ کی ایک اہم شخصیت ہیں، جن کی مدد سے خلافت عثمانیہ خشکی کے ساتھ ساتھ سمندروں پر بھی اپنے دور کی سب سے بڑی طاقت بن گئی تھی۔

ابتدائی زندگی

خیر الدین باربروس کا ایک پورٹریٹ— فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
خیر الدین باربروس کا ایک پورٹریٹ— فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

بہت کم افراد کو علم ہے کہ خیرالدین باربروس ان کا اصل نام نہیں تھا بلکہ خضر تھا جن کی پیدائش 1478 میں لزبوس نامی جزیرے میں ہوئی تھی جو شمال مشرقی بحیرہ ایجیئن میں واقع ہے۔

وہ چاروں بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور انہوں نے عملی زندگی کا آغاز اپنے تیار کردہ ایک بحری جہاز سے مختلف جزیروں میں تجارتی سرگرمیوں سے کیا تھا۔

باربروس کی عرفیت کی وجہ دراصل ان کے بڑے بھائی بابا عروج اور ان کی سرخ داڑھی تھی اور وہ باربروس بردارن کہلانے لگے تھے جبکہ عثمانی سلطان سلیم اول نے انہیں خیرالدین کا نام دیا تھا۔

بڑے بھائی کے ساتھ سمندروں پر مہم جوئی

ایک اور پورٹریٹ — فوٹو بشکریہ britannica
ایک اور پورٹریٹ — فوٹو بشکریہ britannica

1492 میں سقوط غرناطہ کے نتیجے میں اندلس پر عیسائیوں کے مکمل قبضے کے بعد بابا عروج نے وہاں سے مسلم مہاجروں کو شمالی افریقہ اپنے جہازوں سے لانے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔

مگر 1503 میں بابا عروج کے جہاز پر حملہ کرکے گرفتار کرلیا گیا جس کے بعد انہوں نے 2 سال صلیبی جنگجوؤں کے جہازوں میں غلام کے طور پر گزارے، مگر پھر وہ وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔

1505 میں اسپین اور پرتگال نے شمالی افریقہ میں پیشقدمی کرتے ہوئے ساحلی علاقوں پر حملے شروع کردیئے تھے، مسلمانوں پر ان حملوں پر خضر اور عروج نے اس وقت کے عثمانی سلطان بایزید ثانی کے ایک بیٹے Korkud کی رہنمائی میں مغربی بحیرہ روم میں ہسپانوی اور پرتگیز جہازوں کو منتشر کرنے کے لیے جوابی حملے شروع کیے۔

1512 میں نئے عثمانی خلیفہ سلیم اول کی تخت نشینی کے بعد باربروس بردارن نے شمالی افریقہ میں تیونس کے ایک جزیرے جربہ کو اپنا مسکن بنایا اور بحیرہ روم میں اسپین، جینوا اور فرانس کی بحری بالادستی کے خلااف جدوجہد شروع کی اور بتدریج کامیاب بھی ہونے لگے۔

اگلے 3 برسوں میں دونوں بھائی شمالی افریقہ میں نمایاں حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور اپنے طور پر اسپین اور پرتگال کے بحری جہازوں کو ہدف بنایا۔

1516 میں انہوں نے الجزائر پر حملہ کرکے اسے اسپین سے چھین لیا اور بابا عروج نے فتح کی جانے والی سرزمین سلیم اول کے زیرتحت کردی، جس کے بعد وہ عثمانی ریاست کا حصہ بن گیا۔

بابا عروج کو الجزائر کا گورنر اور خضر کو مغربی بحیرہ روم میں خیرالدین کے نام کے ساتھ چیف سمندری گورنر مقرر کیا گیا۔

بابا عروج 1518 کو اسپین کے ساتھ جنگ میں زندگی کی بازی ہار گئے اور اس سے اگلے سال اسپین نے الجزائر پر قبضہ کرلیا۔

خیرالدین باربروس کا عروج

جنگ پریویزا کا ایک پورٹریٹ — فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
جنگ پریویزا کا ایک پورٹریٹ — فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

بابا عروج کے بعد خضر کو خیرالدین باربروس کہا جانے لگا اور انہوں نے اپنی جنگ کو جاری رکھا جس کے لیے عثمانی خلافت سے مدد بھی طلب کی۔

آئندہ برسوں میں الجزائر ایک سے دوسرے ہاتھ میں کئی بار منتقل ہوا مگر اس خطے میں خیرالدین کا اثر و رسوخ بڑھتا چلا گیا جبکہ الجزائر کو عثمانی خلافت نے مغربی بحریہ روم کے لیے مرکزی بیس کی حیثیت دے دی گئی۔

سلیم اول کے بعد ان کے بیٹے سلیمان عالیشان سلطان بن گئے اور خیرالدین باربروس نے سمندروں میں یورپی اقوام کی بالادستی ختم کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں اور وہ عثمانی خلافت کے امیر البحر بن گئے۔

اس کے بعد خیرالدین باربروس نے جنوبی یورپ تک جاکر حملے کیے جبک امریکا سے آنے والے سونے سے بھرے جہازوں پر قبضہ کرلیا۔

اس عرصے میں میں بحیر روم درحقیقت 'عثمانی جھیل' کی حیثیت اختیار کرچکا تھا جس کے خلاف مغربی طاقتوں نے مل کر خیرالدین باربروس پر حملہ کیا۔

1538 کی اس جنگ میں وینس، اسپین، جنیوا، پرتگال، مالٹا اور پاپائی ریاستوں نے مل کر حملہ کیا تھا، مگر جنگ پریویزا میں باربروس نے اینڈریا ڈوریا کی زیرقیادت مسیحی فوج کو زبردست شکست دی، جس کے پاس لگ بھگ 3 سو بحری جہاز تھے جبک باربروس کے پاس 122 جہاز تھے۔

اس جنگ میں خیرالدین باربروس نے 10 جہازوں کو تباہ کیا جبکہ 30 سے زائد پر قبضہ کرلیا جبکہ ان کے ایک جہاز کو بھی نقصان نہیں پہنچا۔

اس جنگ میں کامیابی کے نتیجے میں وسطی اور مشرقی بحیرہ روم پر عثمانی خلافت کی بالادستی کئی دہائیوں تک برقرار رہی، جبکہ باربروس کو شمالی افریقہ میں عثمانی علاقوں کا بیلر بے (گورنروں کے گورنر) اور کپتان الدریا (چیف ایڈمرل) بنادیا گیا۔

اس کے بعد 1541 میں اسپین کے طاقتور ترین بادشا چارلس پنجم کی الجزائر پر حملے کو بھی انہوں نے ناکام بنایا جبکہ طرابلس اور تیونس کو بھی فتح کیا۔

1545 میں خیرالدین باربروس نے ریٹائرمنٹ لے لی اور استنبول میں اپنی سوانح کو مکمل کیا اور 4 جولائی 1546 کو ان کا انتقال ہوا، جس پر عثمانی خلافت نے اعلان کیا تھا 'سمندروں کے رہنما چل بسے ہیں'۔

ان کا مقبرہ استنبول میں موجود ہے جو باسفورس کے یورپی کنارے پر واقع ہے۔

برسوں تک استنبول سے کوئی بھی ترک بحری جہاز اس مقبرے کو اعزازی سیلوٹ دیئے بغیر نہیں گزرتا تھا، جبکہ انہیں بحیرہ روم کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔

خیرالدین باربروس کے مقبرے کے پاس ان کا مجسمہ نصب ہے — فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
خیرالدین باربروس کے مقبرے کے پاس ان کا مجسمہ نصب ہے — فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں