امریکی پولیس کی فائرنگ سے ایک اور سیاہ فام شخص ہلاک

اپ ڈیٹ 02 ستمبر 2020
ہلاکت کے باعث نسل پرستی اور پولیس کے ظلم سے متعلق کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
ہلاکت کے باعث نسل پرستی اور پولیس کے ظلم سے متعلق کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

لاس اینجلس: امریکی پولیس نے ایک اور سیاہ فام شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جس کے باعث نسل پرستی اور پولیس کے ظلم سے متعلق کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبررساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق پولیس کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے شخص کے پاس بندوق تھی جو اس نے امریکا کی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں پرتشدد بحث کے دوران پھینک دی تھی۔

مقامی میڈیا کے مطابق 29 سالہ ڈیجون کیزی نامی شخص اپنی سائیکل پر سوار تھا جب لاس اینجلس کے کاؤنٹی شیرف کے ڈپٹیز نے پیر (31 اگست) کی دوپہر کو گاڑیوں سے متعلق ایک غیر متعین کوڈ کی خلاف ورزی پر اسے روکنے کی کوشش کی تھی۔

مزید پڑھیں: امریکا: سیاہ فام شخص کی ہلاکت پر مظاہرے، 2 شخص ہلاک

پولیس نے بتایا کہ روکنے کی کوشش پر وہ پیدل فرار ہو گیا اور جب اہلکاروں نے اسے پکڑا تو اس نے ایک ڈپٹی کو چہرے پر مکا مارا اور ساتھ ہی کچھ کپڑے گرگئے جو وہ شخص اپنے ساتھ لے کر جارہا تھا۔

لیفٹیننٹ برینڈن ڈین نے رپورٹرز کو بتایا کہ ڈپٹیز نے نوٹ کیا کہ سیاہ فام شخص کے ہاتھ سے گرنے والے کپڑوں کے اندر ایک سیاہ رنگ کی نیم خودکار گن تھی اور اس وقت پولیس ڈپٹی نے اس پر فائرنگ کی تھی۔

تاہم یہ واضح نہیں کہ کیا جب وہ شخص گن نکالنے کی کوشش کررہا تو کیا اس وقے اسے گولی ماری گئی۔

برینڈن ڈین نے کہا کہ حکام نے اس واقعے میں ملوث تمام ڈپٹیز کا انٹرویو لینا چاہتے ہیں۔

ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران ایک رپورٹر نے پوچھا کہ ہلاک ہونے والے شخص کے ہاتھ میں بندوق نہیں تھی، وہ پہلے ہی زمین پر گر چکی تھی تو جب اسے گولی ماری گئی تو اس وقت غیر مسلح تھا؟

یہ بھی پڑھیں: امریکا میں پولیس گردی کےخلاف سیاہ فام سراپا احتجاج

اس پر برینڈن ڈین نے جواب دیا کہ اس حوالے سے میں نہیں جانتا، اگر وہ شخص نیم خود کار بندوق اٹھانے کی کوشش کررہا ہو تو میرے خیال سے ممکنہ طور پر اسی وقت مہلک طاقت کا استعمال کیا گیا۔

لیفٹیننٹ برینڈن ڈین نے بتایا کہ سیاہ فام شخص کو موقع پر ہی مردہ قرار دیا گیا تھا۔

مقامی میڈیا کے مطابق فائرنگ کے چند گھنٹوں بعد ہی سیاہ فام شخص کے لیے انصاف کا مطالبہ کرنے کے لیے 100 سے زائد افراد جمع ہوئے تھے۔

ایک خاتون نے روتے ہوئے سی بی ایس نیوز رپورٹر کو بتایا کہ اگر آپ سب صرف ہمیں مارنے جارہے ہیں تو جیل کا نظام رکھنے کا کیا فائدہ؟

انہوں نے سوال کیا کہ آپ سب (پولیس) یہاں کس لیے ہیں؟ آپ کس کی حفاظت کر رہے ہیں؟

مزید پڑھیں: ٹرمپ کی سیاہ فام شخص کے قتل کیخلاف مظاہروں پر فوجی کارروائی کی تنبیہ

حالیہ ہلاکت ایسے وقت میں ہوئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ منگل (یکم ستمبر کو) کے روز وسکونسن جارہے تھے، جہاں پولیس نے 23 اگست کو سیاہ فام شخص جیکب بلیک کو کمر میں 7 بار گولی ماری تھی جس کے نتیجے میں وہ معذور ہوگئے تھے۔   یاد رہے کہ 25 مئی کو امریکی ریاست مینیسوٹا میں پولیس نے جعلی کرنسی نوٹ استعمال کرنے کے شبہ میں جارج فلائیڈ کو حراست میں لیا تھا جہاں وہ دوران حراست دم توڑ گئے تھے۔

شہری کی گرفتاری کے حوالے سے سامنے آنے والی ویڈیو میں دکھا جاسکتا ہے کہ پولیس افسر ان کی گردن دبا رہے ہیں جبکہ جارج فلائیڈ کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ وہ سانس نہیں لے پارہے ہیں۔

جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد امریکا بھر میں سیاہ فام شخص کے قتل کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔

بعدازاں 20 ستمبر کو امریکا کی ریاست شمالی کیرولائنا کے شہر شارلٹ میں ایک سیاہ فام شخص کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد وہاں کی سیاہ فام برادری بڑھتی ہوئی پولیس گردی اور نسلی امتیاز کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں