طبقاتی نظام میں ہوا کی تقسیم


درخت کم تھے، آبادی زیادہ اور ہوا اس قدر آلودہ تھی کہ لوگ سانس لینے کی خاطر آکسیجن سلینڈر اپنے ساتھ رکھتے۔ جگہ جگہ آکسیجن اسٹیشن بن گئے تھے جہاں لوگ لمبی قطاروں میں اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے رہتے۔ بڑی بڑی کمپنیاں دن رات اپنے اشتہارات تقسیم کرتی رہتیں کہ اگر اپنے پھیپھڑوں کو تندرست و توانا رکھنا چاہتے ہیں تو ان کی کمپنی کا آکسیجن سلینڈر حاصل کریں۔

اگرچہ فضا میں آکسیجن اب بھی موجود تھی لیکن ان کمپنیوں نے جدید تحقیق سے یہ ثابت کردیا تھا کہ اب بغیر آکسیجن ماسک کے سانس لینا زندگی کے لیے خطرہ ہے سو لوگ سانس لیتے ہوئے گھبرانے لگے۔

آکسیجن کی تقسیم میں بھی طبقاتی نظام رائج تھا، طاقتور کو زیادہ اور آسانی سے آکسیجن میسر تھی بلکہ انہیں کبھی بھی آکسیجن حاصل کرنے کی خاطر قطار میں نہ کھڑا ہونا پڑتا اور ابھی ان کے گھروں کے اسٹور روم میں کئی سلینڈر پڑے ہوتے کہ نئی کھیپ ان کے دروازے پر پہنچ جاتی یہی وجہ تھی کہ ان لوگوں نے کئی کئی سالوں کی ایڈوانس آکسیجن جمع کر رکھی تھی۔

دوسری جانب غریب لوگ اپنے پرانے سلینڈر ہاتھوں میں لیے قطار میں کھڑے رہتے اور بہت سے لوگ تو دم گھٹنے کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتے۔ ان کے عزیز رشتہ دار سڑک بند کرکے احتجاج کرتے لیکن طاقتور طبقہ ہمیشہ یہی کہتا کہ ہمیں تمہارے دکھوں کا پوری طرح احساس ہے، جلد کوئی حل نکالتے ہیں، بس سڑک کھول دو۔ سڑک کھل جاتی لیکن حل نہ نکلتا حتٰی کہ کوئی اور آدمی دم گھٹنے سے فوت ہوجاتا۔

مزید پڑھیے: افسانہ: طوفان کی دستک


جنگل ہمارا گھر ہے


اس گاؤں میں ریلوے لائن کے پار گھنا جنگل تھا جہاں سے رات کو گیدڑوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں آتیں۔ جب بھی وہ آوازیں آتیں تو گاؤں کے لوگ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے اور سمجھتے جیسے ساری کائنات خاموش ہوگئی ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ آنکھیں اور کان بند کرلینے سے آوازیں نہیں رکتیں۔ آدھی رات کو گیدڑ گاؤں کی گلیوں میں گھومتے اور بڑے بزرگ کہتے کہ باہر مت نکلنا۔

نوجوانوں نے یقین کرلیا اور سرِشام گھروں میں چھپ کربیٹھ جاتے۔ اگر وہ چاہتے تو لڑ سکتے تھے لیکن انہیں یہی بتایا گیا تھا کہ گیدڑ تعداد میں زیادہ ہیں اور ان کے دانت اتنے نوکیلے ہیں کہ وہ انہیں چیر پھاڑ کر رکھ دیں گے۔ وہ لوگ ڈر گئے اور ساری ساری رات اپنے گھروں کی کنڈیوں کو بار بار دیکھتے رہتے کہ کہیں ہوا کے چلنے کی وجہ سے یا خودبخود کھل نہ گئیں ہوں۔

گیدڑ ان کے دروازوں کے سامنے قہقہے لگاتے، جب وہ لوگ صبح باہر نکل کر دیکھتے تو دروازوں پر پنجوں کی نشان ہوتے۔

بجائے اس کے کہ وہ جنگل میں جاکر گیدڑوں سے لڑتے، وہ چپ چاپ اپنے اپنے دروازوں کی مرمت کرتے اور کام پر چلے جاتے۔

روٹی کھانا اور اپنے ٹوٹے دروازوں کی مرمت کرنا ہی ان کا کام رہ گیا تھا۔

ایک دن جب وہ اپنے اپنے کاموں سے لوٹے تو ان کے گھروں کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور اندر گیدڑ آزادانہ اِدھر سے اُدھر گھوم رہے تھے۔

اس دن کے بعد سے گاؤں کے لوگ جنگل میں رہنے لگے اور کبھی کبھار ریلوے لائن کے اس پار اپنے اپنے گھروں کو حسرت سے دیکھتے ہیں جہاں ان کا داخلہ ممنوع ہے۔

مزید پڑھیے: افسانہ: قربانی


خوفزدہ انسان کا المیہ


خوفزدہ انسان کو زمین سمٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، جیسے آدمی کے پاس پاؤں پھیلا کر لیٹنے کی جگہ بھی نہ ہو۔ اتنی بڑی کائنات میں ایک انسان سانس گھٹنے سے مرجاتا ہے اور دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

کسی نے اسے سمجھایا کہ یوں تنہا زندگی گزارنا ممکن نہیں، کسی سے دل کا حال کہو۔

’خوبصورت ریشمی بالوں والی لڑکی! کیا تم میری زندگی میں آنا پسند کرو گی؟‘ خوفزدہ آدمی نے اس خوف سے نجات کے لیے محبت کی اور دل کا حال اپنی محبوبہ کو سنایا۔

محبوبہ نے اس کی جیب کا موازنہ اپنے ایک اور بوائے فرینڈ کی جیب سے کیا اور نم آلود آنکھوں سے کہا ’سوری! میں نے تمہارے بارے میں کبھی اس طرح سوچا ہی نہیں‘۔

خوفزدہ انسان کی زمین اور تنگ ہوگئی۔

مزید پڑھیے: افسانہ: ’میں تمہیں اپنا مستقبل تباہ نہیں کرنے دوں گا’


باتوں کا جال


وہ انتہائی چالاک انسان ہے جو کسی کام میں ماہر نہیں ہے سوائے باتیں بنانے کے، لیکن گاؤں کے لوگ ہر بار اس کی باتوں میں آجاتے ہیں کیونکہ وہ جال ہی ایسا بنتا ہے۔

ایک بار اس نے کہا کہ وہ گاؤں کے لوگوں کے لیے بجلی کا انتظام کروا رہا ہے۔ اوپر محکمے کے لوگوں سے بات چیت چل رہی ہے، جلد ہی گلی گلی روشن ہوگی۔ لوگ خوش ہوگئے، ہر کوئی چاہتا کہ پہلے اس کے گھر بجلی کا کنیکشن لگے سو وہ اس آدمی کو اپنے گھر دعوتوں پر بلانے لگے۔ ایک دو مہینے وہ دعوتیں اڑاتا رہا پھر ایک روز کہہ دیا کہ ’محکمے میں کچھ گڑبڑ ہوگئی ہے بالکل ویسے ہی جیسے پچھلی بار گاؤں کی پکی سڑک بنتے ہوئے بات بگڑگئی تھی۔ اوپر کچھ لوگ ایسے ہیں جو گاؤں کو بجلی دینا ہی نہیں چاہتے لیکن پانی اب گھر گھر پہنچے گا‘۔

لوگوں نے پھر اعتبار کرلیا۔ اس وعدے کو بھی مدت گزر گئی ہے اور لوگ اب بھی اپنے برتن کنویں سے بھر کر لاتے ہیں، شام کو لالٹین ہاتھوں میں لیے چوپال میں بیٹھ کر اسی آدمی کی باتیں سنتے ہیں جو آج کل گاؤں میں بچوں کا اسکول بنوا رہا ہے۔

مزید پڑھیے: افسانہ: کھڑکی سے جھانکتی زندگی


پریشانی


وہ پریشان تھا، اتنا پریشان کہ اس کے پاؤں ٹھیک سے زمین پر نہیں پڑ رہے تھے، کبھی ایڑیاں زمین سے نہ ٹکراتیں تو کبھی تلوے ہوا میں محسوس ہوتے۔ ایسا خوشی کی وجہ سے نہیں پریشانی کی وجہ سے تھا لیکن وہ کسے بتاتا؟

وہ غسل خانے میں اپنا توازن کھو بیٹھا اور اس کا سر ٹونٹی سے جا ٹکرایا۔ گرتے ساتھ ہی وہ بے ہوش ہوگیا۔ پانی کی بالٹی کب کی بھر چکی تھی اور خون آلود پانی دیوار کے چھوٹے سے سوراخ سے باہر نالی میں گرنے لگا تھا۔ اسی سوراخ سے دن کو پانی اور رات کو چوہے اندر باہر گزرتے رہتے تھے۔

وہ پریشان تھا اور یہ بات صرف اس کے موبائل کو معلوم تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں