اسلام آباد: بحریہ ٹاؤن (پرائیوٹ) لمیٹڈ کراچی (بی ٹی ایل کے) نے حکومت سندھ سے لیز کے حقوق میں توسیع کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔

لیز کے حقوق میں توسیع کے بغیر بحریہ ٹاؤن کو اپنے الاٹیز میں حقوق کی منتقلی میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مزیدپڑھیں: سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن فنڈز کے مستقبل سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا

بحریہ ٹاؤن کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے توسط سے عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئی 3 صفحات پر مشتمل درخواست میں بیان کیا گیا کہ نومبر 2019 تک مجموعی طور پر 460 ارب روپے واجب الادا رقم میں سے 57 ارب 40 کروڑ روپے ادا کیے جاچکے ہیں۔

درخواست میں بتایا گیا کہ بحریہ ٹاؤن نے سپریم کورٹ کے 21 مارچ 2019 کے عملدرآمد بینچ کے فیصلے پر کس طرح عمل کیا اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) میں 16 ہزار 896 ایکٹر رقبہ اراضی کی خریداری کے لیے 460 ارب روپے کی پیش کش کو کیسے قبول کیا۔

سپریم کورٹ کے سابق جج شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے گزشتہ سال 21 مارچ کو عدالت کے 4 مئی 2018 کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے لیے 460 ارب روپے کی پیش کش کو منظور کیا تھا

جس میں ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو سندھ کی جانب سے اراضی کی گرانٹ کا اعلان کیا گیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ انکریمنٹ ہاؤسنگ اسکیم شروع کرنے کے لیے یہ زمین دی گئی تھی لیکن ایم ڈی اے نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ اس کا تبادلہ اپنی اسکیم شروع کرنے کے لیے کیا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: بحریہ ٹاؤن کی زمین کی مد میں 479 ارب روپے کی پیشکش

تازہ ترین درخواست میں کہا گیا کہ بحریہ ٹاؤن پہلے ہی 557 ارب روپے سپریم کورٹ میں جمع کرچکی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے 21 مارچ 2019 کو اپنے آرڈر کے ذریعے بحریہ ٹاؤن کو الاٹ کرنے کی اجازت دی تھی ورنہ 16،896 ایکڑ اراضی کی ڈیل میں بطور ایک بلڈر یا ڈیولپر کی حیثیت سے سوال کریں۔

حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ پوری ادائیگی کی وصولی پر 16 ہزار 896 ایکڑ اراضی میں لیز ہولڈ حقوق سندھ حکومت / ایم ڈی اے کے ذریعے 99 سال کی مدت کے لیے یا اس طرح کے دوسرے دور حکومت کے لیے لیز پر بحریہ ٹاؤن میں منتقل کردیے جائیں گے۔

بعدازاں بحریہ ٹاؤن شرائط و ضوابط کے مطابق الاٹیز کے حق میں حقوق کی منتقلی کرے گا۔

درخواست میں کہا گیا کہ بحریہ ٹاؤن کے الاٹیز کو بحریہ ٹاؤن کراچی سپر ہائی وے پروجیکٹ میں لیز کی عدم دستیابی کی وجہ سے مالی اعانت حاصل کرنے اور ان کی جائیدادوں کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

بحریہ ٹاؤن کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ درخواست گزار کو مجموعی طور پر کارپوریٹ اداروں کو اپنی کمرشل اراضی بیچنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا جبکہ بین الاقوامی سطح پر محصول وصول کرنے کے لیے درخواست گزار کو دستیاب سب لیز پر لیز کے استحقاق کی عدم فراہمی کی وجہ سے 460 ارب روپے کی ادائیگی کی جاسکتی ہے۔

مزیدپڑھیں: ڈان تحقیقات: بحریہ ٹاؤن و دیگر کی بے لگام لالچ

درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت عظمیٰ سندھ حکومت کی جانب سے لیز پر جمع شدہ رقم کی حد تک بحریہ ٹاؤن کراچی سپر ہائی وے پروجیکٹ کو 99 سال کی مدت کے لیے منتقل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بدلے میں الاٹیز کے ساتھ پہلے سے طے شدہ شرائط و ضوابط کے مطابق الاٹیز کے حق میں لیز ہولڈ حقوق منتقل کردیے جائیں گے۔

اس سے قبل اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے توسط سے وفاقی حکومت نے تجویز پیش کی تھی کہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے جمع کرائے جانے والے فنڈز بنیادی طور پر سندھ کے عوام کے ہیں اور یہ سب سے مناسب ہوگا کہ پوری رقم جمع کروائی جائے۔

تاہم وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ سے کہا تھا کہ منصوبوں پر ہونے والے اخراجات میں وفاقی حکومت اور نہ ہی حکومت سندھ کا دخل ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس کے بجائے چیف جسٹس کی مشاورت سے عدالت فنڈ کے استعمال کی نگرانی کے لیے کمیٹی کے چیئرمین کو نامزد کرسکتی ہے۔

وفاقی حکومت نے تجویز کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیئرمین سابق سپریم کورٹ جج ہونا چاہیے جو سندھ سے تعلق رکھنے والے اور رہنے والے ہیں۔

مزیدپڑھیں: ’بحریہ ٹاؤن نے وہ پلاٹ بھی فروخت کیے جو اس کی ملکیت نہیں تھے’

بحریہ ٹاؤن کی جاب سے جمع کروائی جانے والی رقم کے بارے میں وفاقی حکومت کی خواہش رہی کہ اسے 50-50 کی بنیاد پر سندھ کے دیہی / شہری منصوبوں پر وقتا فوقتا خرچ کیا جائے۔

کراچی میں اے جی نے مطالبہ کیا تھا اس رقم کو بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر خرچ کیا جائے جبکہ دیہی علاقوں میں اس کو غریبوں، ہسپتال، اسکولوں اور سیوریج نظام کے لیے رہائشی اسکیموں پر استعمال کیا جائے۔


یہ خبر 12 ستمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں