’بحریہ ٹاؤن نے وہ پلاٹ بھی فروخت کیے جو اس کی ملکیت نہیں تھے’

اپ ڈیٹ 02 مارچ 2019
ضلع ملیر میں بحریہ ٹاؤن کی ملکیت میں 16 ہزار 896 ایکڑ زمین ہے—فوٹو:فیصل مجیب
ضلع ملیر میں بحریہ ٹاؤن کی ملکیت میں 16 ہزار 896 ایکڑ زمین ہے—فوٹو:فیصل مجیب

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کے مجاز ڈیلر کے ریکارڈ میں یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ ریئل اسٹیٹ کمپنی نے وہ زمین بھی فروخت کی جو اس کی ملکیت ہی نہیں تھی یا جو ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو دے دی گئی تھی۔

جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت میں پرزم مارکیٹنگ کی جانب سے داخل کیے گئے جواب میں یہ بات سامنے آئی کہ ان علاقوں کے پلاٹ بھی فروخت کیے گئے جو ریئل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض کی ملکیت نہیں تھے یا جو انہوں نے واپس کردیے تھے۔

قبل ازیں عدالت نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے پلاٹ فروخت کرنے والے مجاز ڈیلرز پرزم مارکیٹنگ، کوسموس، ٹرائی اسٹار کو حکم دیا تھا کہ کراچی میں شروع کیے گئے منصوبے کے روزِ اول سے لے کر اب تک پلاٹوں کی فروخت، بکنگ اور وصول کی گئی رقم کا مکمل ریکارڈ پیش کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: بحریہ ٹاؤن کے خلاف ریفرنسز کو حتمی شکل دینے کا حکم

بینچ نے سپریم کورٹ کے 4 مئی 2018 کو دیے گئے فیصلے پر عملدرآمد کیس کی سماعت کی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ حکومتِ سندھ کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو دی گئی زمین کا بحریہ ٹاؤن کی زمین سے کیا گیا تبادلہ اور کولونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈ ایکٹ 1912 کے تحت جو کچھ بھی صوبائی حکومت نے کیا وہ سب غیر قانونی تھا۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ زمین رہائشی اسکیم متعارف کروانے کے لیے دی گئی تھی لیکن ایم ڈی اے نے بحریہ ٹاؤن سے اس کا تبادلہ کیا جہاں انہوں نے اپنا منصوبہ تعمیر کرلیا۔

موجودہ صورتحال کے مطابق ضلع ملیر میں بحریہ ٹاؤن کی ملکیت میں 16 ہزار 896 ایکڑ زمین ہے جبکہ 7 ہزار 675 ایکڑ زمین ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو واپس کی جاچکی ہے۔

سماعت میں جسٹس فیصل عرب نے تینوں ڈیلرز کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل سردار محمد اسلم سے استفسار کیا کہ وضاحت دیں کہ ریکارڈ کے مطابق اس زمین کے پلاٹ لوگوں کو کیوں فروخت کیے گئے جو بحریہ ٹاؤن نے ایم ڈی اے کو واپس کردی تھی۔

اس دوران جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ ’یا تو سردار اسلم غلط بیانی کررہے ہیں یا بحریہ ٹاؤن‘، انہوں نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے عدالت کے سامنے درست صورتحال نہیں رکھی اس سے بدنیتی واضح ہوتی ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے مزید کہا کہ اگر ڈیلر نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو قومی احتساب آرڈیننس کے تحت قصوروار ثابت کرلیا اور ان کے خلاف بدعنوانی کا ریفرنس درج ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب بحریہ ٹاؤن نے وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ واپس کی گئی زمین کا ایک انچ بھی کسی شخص کو فروخت نہیں کیا گیا اور اگر غلطی سے ایسا ہوا ہوگا تو مذکورہ شخص کو واپس ادائیگی کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی کے قبضے میں موجود غیرقانونی زمین واگزار کروانےکا حکم

اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ فراہم کردہ سیٹیلائٹ تصاویر میں اس زمین پر سڑکوں اور دیگر تعمیرات ظاہر ہوئی ہیں جو بحریہ ٹاؤن کی ملکیت ہی نہیں تھی، اور فروخت کی گئی زمین یقینی طور پر بحریہ ٹاؤن کی جانب سے ہی الاٹ کی گئی تھی۔

بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے کہا کہ انہوں نے ان الزامات کی تردید کے لیے نقشہ جات اور دیگر دستاویزات پیش کردیے ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ فریق نے ریکارڈ پیش کیا ہے بلکہ معاملہ اس کے صحیح ہونے کا ہے۔

جس پر بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے کہا کہ میرے مؤکل سے غلطی ہوئی ہوگی لہٰذا مجھے ریکارڈ کی تصدیق کرنے اور اس کا ڈیلر کے پیش کردہ ریکارڈ سے موازنہ کرنے دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: بحریہ ٹاؤن کی 405 ارب روپے کی پیشکش بھی مسترد

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بحریہ ٹاؤن کے ریکارڈ کے مطابق فروخت کی گئی زمین اس علاقے میں شامل نہیں جو ایم ڈی اے کو واپس کی گئی، جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو دھوکا دیا گیا تو ہم آپ کی بات کیوں سنیں۔

سماعت میں عدالت نے وکیل کو پوڈیئم پر آنے کا کہا جہاں جج نشست رکھے ہوئے تھے تا کہ وہ فراہم کردہ نقشوں کی وضاحت کرسکیں۔

اس موقع پر جسٹس عظمت سعید اور وکیل علی ظفر کے درمیان مکالمہ بھی ہوا اور جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اب سچائی پر سوال اٹھ گئے ہیں، آپ ہماری آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکیں گے۔

مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس: نیب کے عدم تعاون پر سپریم کورٹ برہم

اس پر بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے جواب دیا کہ مجھے دوبارہ سے تصدیق کی اجازت دیں، پرزم جو زمین بیچ رہا ہے وہ کسی جزیرے میں ہوگی۔

جسٹس عظمت سعید نے مزید ریمارکس دیے کہ پرزم یا بحریہ کسی ایک نے جھوٹ بولا ہے، جب اعتبار ایک دفعہ ختم ہو جاتا ہے تو ختم ہو جاتا ہے، آپ کہیں گے باہر دھوپ نکلی ہے میں نہیں مانوں گا اسے ثابت کرنا ہوگا۔

دوران سماعت جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ بحریہ اور پرزم کے دیئے گئے نقشوں میں فرق ہے، آپ سمجھتے ہیں ہم نے ریکارڈ نہیں پڑھا، اگر بحریہ کی بات مان بھی لیں تو ثابت ہوتا ہے کہ پرزم نے لوگوں سے فراڈ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی:الاٹمنٹ غیر قانونی قرار، پلاٹس کی فروخت روکنے کا حکم

جس پر وکیل بحریہ ٹاؤن نے کہا کہ نقشے نہ ہونے کے سبب وہ اس وقت کچھ بھی بتانے سے قاصر ہیں۔

بعدازاں جسٹس عظمت سعید نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل کو اپنے موکل کی پوزیشن واضح کرنے کے لیے ہفتے تک نقشہ جات اور دیگر متعلقہ دستاویزات پیش کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے سماعت 6 مارچ تک ملتوی کردی۔


یہ خبر یکم مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں