یروشلم: فلسطینی رہنماؤں نے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ ہونے والے 'شرمناک' معاہدوں کے خلاف مظاہروں کا مطالبہ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دونوں خلیجی ریاستوں کے حکام اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو باضابطہ بنانے کے لیے منگل کو وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کرنے والے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان 'تاریخی امن معاہدہ'

فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) اور غزہ کے حکمران حماس سمیت گروپوں نے دستخط شدہ ایک بیان میں کہا کہ 'ہم اپنے لوگوں خاص طور پر مہاجر کیمپوں میں رہنے والے فلسطینیوں کو ان شرمناک معاہدوں کی مذمت کرنے کی دعوت دیتے ہیں'۔

بیان میں امریکا، اسرائیل، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے سفارت خانوں کے باہر بھی ریلیاں نکالنے کا مطالبہ کیا گیا۔

فلسطینیوں نے گزشتہ ماہ ابو ظبی پر 'پیٹھ میں چھرا گھونپنے' کا الزام لگایا تھا کیونکہ خلیجی ملک مصر اور اردن کے بعد اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات استوار کرنے کا اعلان کرنے والی تیسری عرب ریاست بن گیا تھا۔

بحرین نے جمعہ کے روز عرب رہنماؤں کے دیرینہ مؤقف کو توڑتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اسرائیل اور فلسطین کا امن معاہدہ ایک شرط ہے۔

پی ایل او کے سیکریٹری جنرل صیب ایرکات نے اسرائیل کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو 'تحفظ برائے سلامتی' قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل سے معاہدہ کرکے یو اے ای نے عالم اسلام، فلسطینوں کے ساتھ غداری کی، ایران

انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ اب عرب دنیا میں کچھ فیصلہ سازوں کا خیال ہے کہ 'عرب قومی سلامتی میٹرکس' کا انحصار اسرائیل کے تحفظ پر منحصر ہے۔

انہوں نے اسرائیل کو یقینی بنانے کی واشنگٹن کی دیرینہ پالیسی کا حوالہ دیا کہ وہ مشرق وسطی کے دیگر ممالک کے مقابلے میں عسکری طور پر زیادہ مضبوط ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عرب اقوام کو 'کسی بھی میدان میں اسرائیل پر فوقیت رکھنے کی اجازت نہیں ہے'۔

خیال رہے کہ عمان نے اسرائیل اور بحرین کے مابین 'امن معاہدے' کے اقدام کا خیرمقدم کیا ہے اور اُمید ظاہر کی تھی کہ اس سے اسرائیلی اور فلسطین کے درمیان امن میں مدد ملے گی۔

حکومت نے بیان میں کہا تھا کہ '(عمان) اُمید کرتا ہے کہ بعض عرب ممالک کی جانب سے اٹھائے گئے نئے تزویراتی اقدامات فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور مشرقی یروشلم کے ساتھ دارالحکومت کے طور پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر مبنی امن قائم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے'۔

مزید پڑھیں: اسرائیل، یواے ای معاہدہ: 'بے باک، شرمناک، اچھی خبر'، عالمی سطح پر ملاجلا ردعمل

اسرائیل کے وزیر انٹلی جنس نے 13 اگست کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے معاہدے کے اعلان کے کچھ دن بعد کہا تھا کہ عمان بھی اس ملک کے ساتھ تعلقات کو باضابطہ طور پر تشکیل دے سکتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تعلقات کو معمول پر لانا ایک 'بہت بڑی پیشرفت' ہے۔

18 اگست کو اسرائیل کی خفیہ ایجنسی 'موساد' کے سربراہ یوسی کوہن نے سیکیورٹی سے متعلق امور پر بات چیت کے لیے یو اے ای کا دورہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین 'امن معاہدے' کے بعد کسی اسرائیلی عہدیدار کا ابوظہبی کا یہ پہلا اعلیٰ سطح کا دورہ تھا۔

اس پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھا متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے معاہدے کر کے عالم اسلام اور فلسطینیوں کے ساتھ غداری کی ہے۔

مزیدپڑھیں: متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کا بائیکاٹ ختم کردیا، فرمان جاری

دوسری جانب سعودی عرب نے کہا تھا کہ وہ اس وقت تک متحدہ عرب امارات کی تقلید میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کرسکتا جب تک یہودی ریاست فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط نہ کردیں۔

علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے پر کہا تھا کہ پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ فلسطینیوں کو ان کا حق ملنے تک ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتے۔

تبصرے (0) بند ہیں