فلم ’قائد اعظم زندہ باد‘ کورونا کے بعد سب سے پہلے ریلیز ہوگی؟

اپ ڈیٹ 17 ستمبر 2020
قائد اعظم زندہ باد کی شوٹنگ فروری 2020 میں ہی مکمل کرلی گئی تھی—اسکرین شاٹ
قائد اعظم زندہ باد کی شوٹنگ فروری 2020 میں ہی مکمل کرلی گئی تھی—اسکرین شاٹ

فلم ساز نبیل قریشی اور فضا علی میرزا کی فلم ’قائد اعظم زندہ باد‘ کی شوٹنگ یوں تو رواں برس فروری میں اس وقت ہی مکمل کرلی گئی تھی جب ملک میں کورونا نہیں پہنچا تھا۔

تاہم فلم کی شوٹنگ مکمل ہونے کے بعد ملک میں کورونا کی وبا پھیل گئی، جس کے بعد سینما ہالز کو بند کردیا گیا تھا۔

اگرچہ ملک میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے کورونا وائرس کے نئے کیسز میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے اور حکومت نے بھی اگست کے آغاز میں ہی سینما ہالز کو سخت احتیاطی تدابیر کے ساتھ کھولنے کی اجازت دی تھی تاہم تاحال سینما نہیں کھل سکے۔

ملک کے سینما ہالز کے نہ کھلنے میں جہاں کورونا کا خوف ایک سبب ہے، وہیں ملک میں مقامی فلموں کی قلت، پاکستان میں بھارتی فلموں پر پابندی اور ہولی وڈ فلموں کی نمائش میں تاخیر بھی سینما نہ کھلنے کا ایک سبب ہے۔

تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ ملک میں رواں برس نومبر تک سینما کھل جائیں گے، لیکن ساتھ ہی خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر سینما کھل بھی گئے تو تمام اسکرینز پر فلمیں ریلیز نہیں ہوسکیں گی۔

ملک میں مقامی فلموں کی کمی اور مقامی فلم سازوں کی جانب سے کورونا کے باعث کاروبار میں پڑنے والے اثرات کی جانب سے جہاں اپنی فلموں کی نمائش کو غیر اعلانیہ طور پر ملتوی کردیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ماہرہ اور فہد کی 'قائداعظم زندہ باد' کی شوٹنگ مکمل

وہیں فلم ساز نبیل قریشی اور فضا علی میرزا کی خواہش ہے کہ ان کی فلم ’قائد اعظم زندہ باد‘ وہ پہلی فلم بنے، جسے کورونا کی وبا کے بعد سینماؤں میں ریلیز کیا جائے۔

ڈان امیجز سے بات کرتے ہوئے فضا علی میرزا نے بتایا کہ ان کی خواہش ہے کہ ان کی فلم ’قائد اعظم زندہ باد‘ دسمبر میں ریلیز ہو۔

نبیل قریشی نے سوال کیا کہ جہاں لوگ اب بھی شاپنگ مالز میں جا رہے ہیں، وہ سینما کھلنے کے بعد وہاں کیوں نہیں جائیں گے؟

فضا علی میرزا کے مطابق انہوں نے اپنی پہلی فلم ’نامعلوم افراد‘ کو 2014 میں انتہائی کم اسکرینز پر مشکل حالات میں ریلیز کیا تھا اور اب وہ اپنی نئی فلم ’قائد اعظم زندہ باد‘ کے لیے بھی یہی خواہش رکھتے ہیں۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ اس وقت سینما انڈسٹری کے لیے مشکل حالات ہیں اور انہیں نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے لیکن وہ اپنی فلم کی ریلیز کے لیے مزید ایک سال انتظار نہیں کرسکتے۔

ان کے مطابق اگر وہ رواں سال اپنی فلم ’قائد اعظم زندہ باد‘ کو ریلیز کردیتے ہیں تو اگلے سال وہ مزید 2 نئی فلمیں بنانے کے قابل ہوں گے۔

فضا علی میرزا کا کہنا تھا کہ ایک وقت تھا جب سینما انڈسٹری وی سی آر آنے کی وجہ سے زوال کا شکار تھی اور ٹی وی پر بھی فلمیں دکھائی جاتی تھیں تاہم اس باوجود لوگ سینما جاتے تھے اور اب بھی جب کورونا کی وجہ سے نیٹ فلیکس جیسی ویب سائٹس نے سینما کی جگہ لے لی ہے، تب بھی انہیں یقین ہے کہ لوگ سینما ضرور پہنچیں گے۔

ایک طرف جہاں فضا علی میرزا اور نبیل قریشی جیسے فلم ساز اپنی فلم کو رواں برس ہی ریلیز کرنے کے خواہاں ہیں، وہیں متعدد پروڈیوسرز مشکل حالات کی وجہ سے اپنی تیار شدہ فلموں کو بھی آئندہ سال ریلیز کرنے کے خواہاں ہیں۔

مزید پڑھیں: ایکشن اور رومانس سے بھرپور ’ٹچ بٹن‘

اے آر وائی فلمز پروڈکشن ہاؤس بھی ریلیز کے لیے تیار اپنی فلم ’ٹچ بٹن‘ کو آئندہ سال ریلیز کرنے کا خواہاں ہے جب کہ میگا بجٹ فلم ’دی لیجنڈ مولا جٹ‘ کو بھی آئندہ سال ہی ریلیز کیے جانے کا امکان ہے۔

اسی طرح وجاہت رؤف کی فلم ’پردے میں رہنے دو‘ اور عدنان صدیقی کی ’دم مستم‘ سمیت دیگر فلموں کے پروڈیوسرز بھی اپنی فلموں کو آئندہ سال ریلیز کرنے کے خواہاں ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں مقامی فلم پروڈیوسر اپنی تیار فلموں کو آئندہ سال ریلیز کرنے کے خواہاں ہیں، وہیں سینما مالکان بھی رواں سال کم فلموں کی وجہ سے سینما کھولنے کے لیے تیار نہیں۔

ایٹریم سینما کے مالک ندیم مانڈوی والا کے مطابق کم مقامی فلموں کی وجہ سے کئی سینما ہاؤسز کو اپنی اسکرینز بند کرنی پڑ سکتی ہیں۔

ندیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ انہیں سینما کھولے ہوئے ایک دہائی ہوچکی ہے تاہم گزشتہ برس ان کی کمائی میں اس وقت نمایاں کمی دیکھی گئی، جب حکومت نے بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگائی اور پھر کورونا کی وبا نے ان کے کاروبار کو مزید متاثر کیا۔

سائن پیکس سینما کے مارکیٹنگ سیلز کے ہیڈ عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ ملک میں بولی وڈ فلموں کی نمائش پر پابندی ہے جب کہ بھارتی حکومت نے اپنے مواد کو پاکستان میں نشر کرنے کے حوالے سے پابندی عائد کر رکھی ہے، اس لیے اب سینما مالکان بھارتی فلموں کی جانب نہیں دیکھتے اور نہ ہی اس بات کے امکانات ہیں کہ دونوں ممالک میں تعلقات جلد بحال ہوں گے۔

سینما مالکان اور عہدیداروں کے مطابق ملک میں سینما و فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے حکومت کو آگے آنا چاہیے اور حکومت سالانہ 30 سے 40 فلموں کی تیاری کے لیے مالی معاونت فراہم کرے۔

یہ بھی پڑھیں: 'دی لیجنڈ آف مولا جٹ' کو آخر کار ریلیز کیلئے گرین سگنل مل گیا

سینما مالکان نے اس بات کے خدشات بھی ظاہر کیے کہ کورونا کی وبا کے بعد کسی نہ کسی طرح 2021 میں سینما کھل جائیں گے اور ایک سال تک کام بھی ٹھیک چلے گا لیکن پھر 2022 میں مقامی فلموں کی انتہائی قلت سے مزید مشکل حالات پیدا ہوجائیں گے۔

سینما عہدیداروں نے بتایا کہ ملک میں بولی وڈ فلموں کی نمائش کے بعد سینماؤں نے اپنی 75 اسکرینز کو بھی بند کردیا اور اب کورونا کی وجہ سے مالکان مزید اسکرینز کو بند کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

سینما مالکان نے خدشہ ظاہر کیا کہ 2022 میں پاکستانی فلمیں نہ ہونے کے برابر ہوں گی اور اب جتنی بھی فلمیں ریلیز کے لیے تیار ہیں وہ آئندہ سال تک ریلیز ہو جائیں گی۔

سینما مالکان کے مطابق سال 2021 میں زیادہ سے زیادہ مقامی فلمیں بنانے کا آغاز کیا جائے، تاکہ 2022 میں انڈسٹری کو مشکلات کا سامنا نہ ہو اور انڈسٹری کسی بیرونی مواد کی منتظر بھی نہ رہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں