سندھ میں دوسرے مرحلے میں 21ستمبر سے اسکولز نہ کھولنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 18 ستمبر 2020
سندھ میں 21 ستمبر سے دوسرے مرحلے میں تعلیمی ادارے کھلنے تھے—فائل فوٹو: رائٹرز
سندھ میں 21 ستمبر سے دوسرے مرحلے میں تعلیمی ادارے کھلنے تھے—فائل فوٹو: رائٹرز

سندھ کے وزیرتعلیم سعید غنی نے کہا ہے کہ صوبے میں 21 ستمبر سے دوسرے مرحلے میں چھٹی سے آٹھویں کلاس کے بچوں کے لیے اسکولز کھولنے کا فیصلہ 28 ستمبر تک مؤخر کردیا ہے۔

کراچی میں پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ اللہ نے کرم کیا کہ پاکستان میں کورونا وائرس کی صورتحال اس خرابی تک نہیں پہنچی جس کا خطرہ تھا، یہی نہیں بلکہ ہمارے ملک میں صورتحال میں بہتری آئی اور کیسز اور اموات میں کمی آئی۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ دن ایسے بھی گزرے جس میں کورونا وائرس کی وجہ سے کوئی موت واقع نہیں ہوئی۔

تاہم اسکولز کھولنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں پورے ملک، حکومتوں اور والدین کو تشویش تھی اور اسی وجہ سے سب سے آخر میں اسکولز کھولنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ جب یہ فیصلہ ہورہا تھا تب بھی میں نے کہا کہ یہ سب سے مشکل فیصلہ ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں میں 445 کا اضافہ، مزید 514 صحتیاب

انہوں نے کہا کہ ملک میں حالات کی بہتری کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ 15 ستمبر سے بڑی جماعتیں کھلیں گی جس کے بعد 21 سے چھٹی سے آٹھویں اور 28 ستمبر سے پرائمری اور پری پرائمری کے بچوں کے لیے اسکولز کھل جائیں گے جس کا مقصد یہ تھا کہ اسکولز میں بچوں کی تعداد کم رہے اور ایس او پیز پر عملدرآمد کرنے کا تجربہ ہوسکے کہ کس حد تک ان پر عملدرآمد ہوسکتا ہے۔

خیال رہے کہ اس وقت ملک میں کورونا وائرس کی مجموعی صورتحال بہتر ہے تاہم گزشتہ 2 سے 3 روز میں کچھ علاقوں خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ کچھ نجی اسکولز میں اچھے اقدامات کیے گئے جبکہ پہلے دن ضلع جنوبی کے اسکولز کے دورہ کیا تو وہاں اسکولز کی صورتحال بہتر تھی تاہم کالجز میں انتظامات ٹھیک نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ میں نے مختلف اضلاع میں بھی اسکولز کا دورہ کیا اور کچھ جگہوں پر سرکاری اسکولز میں کوتاہی ضرور تھی۔

دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ کچھ نجی اسکولز جنہیں ہم نے بند کیا وہاں چھوٹی کلاسز کے بچوں کو بھی بلایا گیا تھا جبکہ وہاں کوئی ایس او پیز پر عمل نہیں کیا جارہا تھا سب بچوں کو ایک ساتھ ہی بٹھایا گیا تھا۔

انہوں نے کہا ابھی جب بڑے بچوں کو بلا رہے ہیں تو یہ صورتحال ہے، کل جب یہاں بچوں کی تعداد بڑھے گی تو میں اندازہ لگاسکتا ہوں کہ صورتحال کس قدر بھیانک ہوسکتی ہے۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب ہم نے تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ کیا تو کورونا کے ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ کیا اور تمام سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کو مفت ٹیسٹ کروانے کا کہا گیا اور ابھی تک 14 ہزار 544 ٹیسٹ کیے گئے جس میں سے 3 ہزار 636 کے نتائج ہمارے پاس آگئے ہیں جس میں سے 89 مثبت آئے جو 2.4 فیصد ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک اسکولز، کالجز اور جامعات میں کیے گئے ٹیسٹ کے مثبت آنے کی شرح یہ ہے جبکہ ابھی 11 ہزار کے قریب نتائج آنا باقی ہے، تاہم اگر میں یہی شرح رکھوں تب بھی متوقع کیسز کی تعداد 360 ہوسکتی ہے۔

وزیرتعلیم سندھ کا کہنا تھا کہ یہ اس وقت کی صورتحال ہے جب ہم نے چھوٹی کلاسز کو نہیں بلایا جبکہ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے 100 فیصد ٹیسٹ کرلیے ہیں تاہم ہم تیزی سے ٹیسٹ کر رہے ہیں لیکن اگر یہی صورتحال رہتی ہے تو یہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔

اس موقع پر سعید غنی کا کہنا تھا کہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سے مشورے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ہم دوسرے مرحلے جس میں 21 ستمبر سے چھٹی، ساتویں اور آٹھویں کے بچوں کے لیے اسکولز کھولنے کا فیصلہ مؤخر کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک ہفتے مزید صورتحال کا جائزہ لیں گے کہ ہم ایس او پیز پر عملدرآمد میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں، تاہم خدانخواستہ اگر ہم اس پر عمل نہ کرواسکے اور کیسز میں اضافہ ہوتا ہے تو ہم اپنے فیصلوں کا جائزہ لے سکتے ہیں لیکن حکومت سندھ کسی بھی صورت میں بچوں کی صحت پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں احساس ہے کہ بچوں کی تعلیم کا نقصان ہورہا، اسکولز مالکان کو نقصان ہورہا لیکن اسکولز کے نقصان اور بچوں کی تعلیم کے نقصان کو بچانے کے لیے ہم بچوں کی صحت کو داؤ پر نہیں لگا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ہم دوسرے مرحلے میں اسکولز کھولنے کا فیصلہ 28 ستمبر تک مؤخر کر رہے ہیں لیکن اگر صورتحال بہتری کی طرف گئی تو اسکولز کھول دیں گے لیکن اگر یہ بہتر نہ ہوئی تو ہم 28 ستمبر سے پہلے بیٹھ کر کوئی فیصلہ کریں گے۔

دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اسکولز کھلیں لیکن ہمیں یہ خوف و پریشانی نہ ہو کہ ہمارے بچے اسکولز جائیں گے تو انہیں کوئی بیماری لاحق ہوجائے گی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ تمام سرکاری اسکولز میں ایس او پیز پر 100 فیصد عملدرآمد نہیں ہوا لیکن صورتحال بہتر تھی جبکہ تمام نجی اسکولز میں بھی خرابی نہیں ہے کچھ میں صورتحال بہت اچھی تھی لیکن کچھ نے بہت زیادہ خلاف ورزیاں کیں۔

یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے مرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد اسکولز کو مستقل بند کرنا نہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ اگر کوئی کام غلط کر رہے ہیں تو اپنے رویوں کو ٹھیک کریں اور حکومتی ہدایت پر عمل کریں کیونکہ یہ بچوں کی صحت کی بات ہے۔

دوران گفتگو سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود اور بین الصوبائی تعلیم کی کمیٹی میں بات کروں گا لیکن اگر ایک صورتحال مجھے خراب ہوتی نظر آرہی ہے تو مجھے این سی او سی کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔

بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ریلیوں سے متعلق انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو نے کوئی ریلی نہیں نکالی بلکہ وہ بارش سے متاثرہ علاقوں میں گئے لیکن جب لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ بلاول بھٹو آرہے تو لوگ وہاں آجاتے لیکن یہ کوئی اتنا بڑا مجمع نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ تاہم کراچی میں سیاسی و دیگر سرگرمیاں ہوئی ہیں لیکن بازار میں جانا، ریلی، جلسے اور جلوس میں بچے نہیں جاتے اور اس میں آپ کے پاس آپشن ہے کہ آپ جائیں یا نہ جائیں جبکہ جب اسکولز کھولتے ہیں تو وہاں بچے جاتے ہیں اور انہیں ایس او پیز کا اتنا زیادہ علم نہیں ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے صوبائی وزرائے تعلیم سے مشاورت کے بعد 15 ستمبر سے مرحلہ وار تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کیا تھا۔

اس اعلان کے بعد 15 ستمبر سے اسکولوں (صرف نویں اور دسویں جماعت)، کالجز اور جامعات کو مرحلہ وار دوبارہ کھول دیا تھا جس کے ساتھ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (ایس او پیز) پر عمل در آمد کو یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

مزید یہ کہ سندھ میں 21 ستمبر سے چھٹی سے آٹھویں کلاسز کے لیے اسکولز کھولنے کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تھا جبکہ پرائمری اور پری پرائمری کو 28 ستمبر سے کھلنا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں