پی ایف یو جے کی میڈیا کے خلاف 'منظم جنگ' کی مذمت

اپ ڈیٹ 28 ستمبر 2020
ایف ای سی کا اجلاس بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں منعقد ہوا—فائل فوٹو: اے ایف پی
ایف ای سی کا اجلاس بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں منعقد ہوا—فائل فوٹو: اے ایف پی

کوئٹہ: پاکستان کی صحافی برادری نے صحافیوں پر تشدد، ان کے اغوا اور گرفتاری، غیر اعلانیہ سنسرشپ, میڈیا ہاؤسز پر مالی دباؤ، مالکان اور صحافیوں کو 'سرکاری لائن' پر کام کرنے پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اعلامیے میں اس امر کا بھی اظہار کیا گیا کہ اگر مالکان اور صحافی سرکاری لائن پر کام نہیں کرتے تو حکومت کے غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مزیدپڑھیں: وزیر خارجہ کا 'میڈیا رپورٹ' کی صداقت پر خدشات کا اظہار

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی فیڈرل ایگزیکٹو کونسل (ایف ای سی) کی طرف سے تین روزہ مشاورت کے بعد جاری اعلامیے میں میڈیا کے موجودہ بحران کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف کی حکومت کو براہ راست ذمہ دار قرار دیا گیا۔

ایف ای سی کا اجلاس بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں منعقد ہوا۔

اجلاس میں ملک بھر سے صحافی یونینز کے تمام صدور اور سیکریٹریز اور منتخب ایف ای سی ممبران نے شرکت کی۔

پریس کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے اجلاس نے کہا کہ 'آزادی اظہار رائے کو روکنے کے لیے حکومت اور میڈیا مخالف قوتوں کے ذریعے ایک منظم جنگ کا آغاز کیا گیا ہے'، جو 1973 کے آئین کے خلاف ہے۔

اعلامیے میں بتایا گیا کہ عمران خان کی زیر قیادت حکومت کا پہلا کام میڈیا انڈسٹری پر مالی دباؤ ڈالنا تھا جو میڈیا پر عائد بقایاجات تھے جس کے نتیجے میں کام کرنے والے صحافی متاثر ہوئے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ 'مالی دباؤ کے ساتھ حکومت نے مائیکرو سطح پر کنٹرول کرنا شروع کیا جس کے لیے انہوں نے واضح اور غیر واضح ٹیلی فون کالز، ریڈ لائن کی حدود میں اضافے، غیراعلانیہ سینسر شپ جیسے اقدامات اٹھائے جس کی آمریت کے دور میں بھی مثال نہیں ملتی، جہاں ایسی زبردستی نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے سوشل میڈیا ریگولیٹ کرنے کے قواعد و ضوابط کی منظوری دے دی

ایف ای سی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر میڈیا مخالف تمام پالیسیاں ترک کرے اور میڈیا انڈسٹری کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر حکمران جماعت اپنے منشور کے مطابق آزادی فراہم کرے۔

ایف ای سی نے وفاقی دارالحکومت اور ملک کے دیگر حصوں سے آئے ہوئے صحافیوں کے اغوا اور ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے چیف ایڈیٹر میر شکیل الرحمٰن کی 30 سالہ پرانے اراضی کی خریداری پر گرفتاری پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

اس کے علاوہ اعلامیے میں 'حکومت کی جانب سے متعلقہ قواعد و ضوابط میں ترمیم اور سوشل میڈیا کو اپنے مکمل قابو میں لانے کے لیے تازہ کالے قوانین نافذ کرنے کی مسلسل کوششوں' کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی۔

ایف ای سی نے 'مشکوک ریڈیو اسٹیشنز اور ٹی وی چینلز' کو چلانے کے عمل کی مذمت کی۔

اعلامیے میں خواتین صحافیوں اور ٹی وی اینکرپرسنز کو ریاستی ایجنٹس سے بالاتر ہونے کا بہانہ کرتے ہوئے نامعلوم ٹرول گروپوں کی طرف سے ٹرولنگ اور ہراساں کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بھی شدید مذمت کی گئی۔

اعلامیے میں تمام صوبوں میں صحافیوں، میڈیا کارکنوں اور علاقائی میڈیا اداروں کی حفاظت کا مطالبہ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: سرکاری دفاتر میں سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی ہوگی، آئی ٹی حکام

حکومت سے اشتہاری نرخوں کو معقول بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایف ای سی نے وزارت اطلاعات کے زیر التوا 6 ارب روپے کے بقایا جات کو ادا کرنے کا کہا۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور سینئر صحافیوں کی ایگزیکٹو کونسل سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے گزشتہ حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومتیں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔


یہ خبر 28 ستمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں