'توہین آمیز' سوشل میڈیا پوسٹس کیس: ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین پی ٹی اے عدالت طلب

اپ ڈیٹ 01 اکتوبر 2020
صوبائی دارالحکومت میں عدالت عالیہ میں کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ
صوبائی دارالحکومت میں عدالت عالیہ میں کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ

لاہور ہائیکورٹ نے سوشل میڈیا پر مذہبی شخصیات کے خلاف مبینہ طور پر توہین آمیز ریمارکس سے متعلق کیس میں سیکریٹریز داخلہ و مواصلات، پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل کو طلب کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک شہری لیاقت علی چوہان نے اپنے وکیل کے توسط سے مقدس شخصیات کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس اور تصاویر شیئر کرنے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی میں ایف آئی اے کی نااہلی سے متعلق سوال کیا۔

علاوہ ازیں گزشتہ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر لاہور ابوذر سبطین عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ درخواست گزار کی جانب سے اٹھائے گئے معاملے کو جانچ پڑتال کے لیے بھیجا گیا ہے اور سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر قابل اعتراض مواد اپ لوڈ کرنے والے اصل یوزر (صارفین) کا کھوج لگانے کے لیے انکوائری کا آغاز کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام کی آڑ میں توہین آمیز زبان کے استعمال کی اجازت نہیں، سپریم کورٹ

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ مواد ویب سائٹس پر اب بھی موجود ہے اور ان لوگوں کے خلاف کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی گئی جنہوں نے یہ جرم کیا۔

اس موقع پر چیف جسٹس محمد قاسم خان نے ریمارکس دیے کہ ریاست کے ذمہ داروں کا یہ قانونی فرض تھا کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق اپنے فرائض انجام دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آئینی ضمانتیں ہمارے مذہب کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، لہٰذا یہ پاکستان میں رہنے والے ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کی عزت و وقار کو برقرار رکھے اور پاکستان کی حدود میں کسی بھی ویب سائٹ پر کسی کی طرف سے بھی شائع کی گئی کوئی بھی توہین آمیز گفتگو کو ہٹنا چاہیے'۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'اس طرح کی اشتعال انگیز اور گھناؤنی حرکتوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے تاکہ کوئی دوبارہ اس طرح کی حرکت کرنے کی جرات نہ کرسکے'۔

انہوں نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ داخلہ اور مواصلات کے سیکریٹریز، چیئرمین پی ٹی اے اور ڈی جی ایف آئی اے کی متعلقہ رپورٹس کے ساتھ حاضری آج (بدھ) تک یقینی بنائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مسئلہ حضرت محمد ﷺ اور دیگر شخصیات سے متعلق تھا جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری کائنات کے لیے مقدس ہیں۔

علاوہ ازیں انہوں نے قانونی افسر کو ہدایت کی کہ وہ اس سلسلے میں وفاقی کابینہ سے ہدایات لیں اور مذکورہ معاملے پر پیش رفت سے متعلق آگاہ کریں۔

سپریم کورٹ کا سوشل میڈیا سے توہین آمیز مواد ہٹانے کا عمل جاری رکھنے کا حکم

دوسری جانب سپریم کورٹ میں مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی کے ملزم شوکت علی کی درخواست ضمانت سے متعلق سماعت میں سپریم کورٹ نے حکام کو سوشل میڈیا سے توہین آمیز مواد ہٹانے کا عمل جاری رکھنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کے دوران حکام کو ہدایت کی کہ وہ گستاخانہ مواد کے خلاف قوانین پر سختی سے عملدرآمد کریں۔

اس موقع پر عدالت میں گستاخانہ مواد ہٹانے سے متعلق حکومتی رپورٹ پیش کی گئی جس پر عدالت نے اطمینان کا اظہار کیا۔

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ خوشی ہے کہ سوشل میڈیا سے گستاخانہ مواد ہٹا دیا گیا۔

مزید پڑھیں: تکنیکی صلاحیت بڑھائیں یا سوشل میڈیا ویب سائٹس بلاک کریں، پی ٹی اے کی تجویز

دوران سماعت ملزم کے وکیل نے کہا کہ مدعی مقدمہ نے تسلیم کیا ہے کہ ملزم نے بالواسطہ توہین کی، کیس میں مدعی مقدمہ کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ ڈیڑھ سال سے ملزم جیل میں ہے، جس پر جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ ایف ائی اے نے ملزم کی تحریر کو توہین آمیز قرار دیا ہے۔

اس پر سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ چالان جمع ہوچکا ہے، صرف 5 گواہان ہیں، جس پر جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ بہتر ہے کہ درخواست واپس لے کر ٹرائل کا سامنا کریں۔

بعد ازاں ملزم شوکت علی نے درخواست ضمانت واپس لے لی، جس پر عدالت نے ٹرائل کورٹ کو جلد فیصلے کی ہدایت کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں