پاکستان میں مقبولیت حاصل کرنے والے کئی ادیبوں میں سے ایک کا نام ’سعادت حسن منٹو‘ ہے۔ ان کی شہرت صرف پاک و ہند تک ہی محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی پہنچی ہوئی ہے۔

پاکستان اور ہندوستان میں اردو اور ہندی زبانوں سمیت دیگر علاقائی زبانوں کے علاوہ، انگریزی اور دیگر بین الاقوامی زبانوں میں منٹو کے کام کا تراجم کی صورت میں منتقل ہونا، ان کی عالمی شہرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

2012ء میں منٹو کی پیدائش (1912) کے لحاظ سے ’منٹو صدی‘ منائی گئی۔ اس موقع پر ان کے حوالے سے کافی کچھ لکھا گیا، مگر کچھ بہت زیادہ نیا کام دیکھنے کو نہ مل پایا، کیونکہ منٹو پر کام کرنے والے محققین کی اکثریت نے بنا کسی ترتیب اور تقسیم کے کام کیا ہے، جس کی وجہ سے منٹو شناسی کی تحقیق کے زیادہ تر حصے میں تکرار اور یکسانیت کا شکار رہے۔

منٹو صاحب پر ہونے والی تحقیق کا جائزہ لیا جائے، تو جن چند مستند محققین کے نام لیے جاتے ہیں، ان میں ڈاکٹر علی ثنا بخاری، شمس الحق عثمانی اور پرویز انجم شامل ہیں، جبکہ اسی ذیل میں ڈاکٹر امجد طفیل اور احمد سلیم کا مرتبہ کام بھی موجود ہے، لیکن ان دونوں کے کام پر اہل علم کے کچھ تحفظات ہیں، جبکہ ڈاکٹر روش ندیم نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے لیے ’منٹو کی عورتیں‘ کے عنوان سے منفرد تحقیقی پہلو استوار کیا اور موضوع کے دائرے میں رہتے ہوئے منٹو کے نسوانی کرداروں کی مختلف جہتیں دریافت کیں۔ یہاں چونکہ صرف منٹو کے محققین کا تذکرہ مقصود ہے، اس لیے نقادوں کا تذکرہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔

مزید پڑھیے: عصمت چغتائی اپنے 'بھائی' منٹو کی نظر میں

منٹو کے محققین کے ذیل میں پاکستان میں مزید جن لوگوں نے منٹو شناسی میں تھوڑا بہت کام کیا، ان میں ابدال احمد جعفری، امجد جاوید، پروفیسر سجاد شیخ، ڈاکٹر مظہر احمد، طاہر اصغر اور دیگر شامل ہیں، جبکہ منٹو صاحب کے کام کو انگریزی اور اردو کے تناظر میں ’منٹو صدی‘ ایڈیشن مرتب کرنے سے بھی ایک نیا در کھلا، جس کو منٹو کی بیٹی نصرت جلال اور بھتیجی ڈاکٹر عائشہ جلال نے مرتب و مدون کیا۔

اسی طرح پاکستان سے انگریزی مترجمین میں مجاہد عشائی، خالد حسن، محمد عمر میمن، عامر رضوی اور دیگر شامل ہیں، جبکہ غیر ملکی مترجمین کی فہرست بھی خاصی طویل ہے۔ پھر منٹو کی شخصیت اور فن پر لکھی گئی انفرادی تحریروں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے اور یہ سب تفصیل الگ تحریر کی متقاضی ہے۔

کچھ عرصہ قبل منٹو شناسی کے افق پر ایک اور نام ’ڈاکٹر طاہر عباس‘ کا نمایاں ہوا ہے، جنہوں نے منٹو شناسی میں تحقیق کی سنجیدہ روایت کو آگے بڑھایا۔ ان کی منٹو سے لگن کو دیکھتے ہوئے ان کے استاد اور بہاؤالدین زکریہ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدر نشین ڈاکٹر قاضی عابد نے انہیں منٹو شناسی کے لیے راغب کیا اور تحقیق کا عنوان بھی دیا، جس پر انہی کی زیرِ نگرانی ایم فل کا مقالہ ’پاکستان میں منٹو شناسی کی روایت‘ 2005ء میں مکمل کیا۔ پھر ڈاکٹر طاہر عباس کچھ جامعاتی سیاست کا شکار ہوئے، جس کی وجہ سے ان کو پی ایچ ڈی کرنے کے لیے بہاولپور جانا پڑا، جہاں سے انہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی سے ڈاکٹر لیاقت علی کی زیرِ نگرانی ’اردو میں منٹو شناسی کی روایت‘ پر مقالہ لکھا اور 2018ء میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔

گزشتہ 2 دہائیوں سے منٹو شناسی میں مگن ڈاکٹر طاہر عباس کی تحقیق 2019ء میں 9 کتابوں کی صورت میں شائع ہوئی۔ یہ مرتبہ کام ہے، جس کو تلاش و تحقیق کے بعد کتابی صورت میں چھاپا گیا اور منٹو کی مختلف جہتوں کے اعتبار سے ان کتابوں کو عنوانات دیے گئے۔

پہلی کتاب

ان کتابوں میں سب سے پہلی کتاب ’یہاں سعادت حسن منٹو دفن ہے‘ کے نام سے ہے۔ منٹو پر جو منثور اور منظوم خاکے لکھے گئے، وہ اس کتاب میں 2 حصوں میں شامل کیے گئے ہیں۔ حصہ اوّل میں شامل کیے گئے نثری خاکوں کی تعداد 29 ہے، جبکہ حصہ دوم میں 34 منظوم خاکے ہیں۔ نثری خاکوں میں ایک طرف جہاں ابراہیم جلیس، ابوالحسن نغمی، احمد ندیم قاسمی، اوپندرناتھ اشک، اے حمید، شاہد احمد دہلوی، عصمت چغتائی، کرشن چندر، مرزا ادیب اور دیگر قلم کاروں کے خاکے، منٹو کی شخصیت، مزاج، نفسیات اور حالات کی خوب منظر کشی کرتے ہیں، دوسری طرف منٹو کا خود پر اپنا لکھا ہوا خاکہ بھی خاصے کی شے ہے، جبکہ منظوم خاکوں میں مصطفی زیدی، مجید امجد، عبدالرحمٰن چغتائی، خاطر غزنوی، حمایت علی شاعر اور گلزار سمیت دیگر خاکے بھی منٹو کو شاندار خراج تحسین ہے۔

دوسری کتاب

دوسری کتاب کا تعلق منٹو کی خاکہ نگاری پر کی گئی تنقید و تحقیق سے ہے۔ منٹو صاحب نے جو خاکے لکھے، وہ ’گنجے فرشتے’ اور ’لاؤڈ اسپیکر’ کے عنوانات سے 2 کتابوں میں شائع ہوئے، جن کی کل تعداد 22 ہے۔ منٹو کے ان خاکوں پر جو تنقیدی مضامین لکھے گئے، ان کو ڈاکٹر طاہر عباس نے ’منٹوخاکے۔ مباحث’ کے نام سے مرتب کیا۔ اس کتاب میں 19 مضامین شامل ہیں، جن کے مضمون نگاروں میں احمد عقیل روبی، ڈاکٹر امجد طفیل، ڈاکٹر کامران کاظمی، مبین مرزا، وارث علوی اور دیگر شامل ہیں۔

تیسری کتاب

اسی طرح تیسری کتاب ’سیاہ حاشیے’ ہے، جس میں منٹو کی اس کتاب کا متن اور اس پر ہونے والے مباحث شامل کیے گئے ہیں۔ یہ وہ افسانے، افسانچے اور مختصر تحریریں ہیں، جن میں منٹو نے تقسیمِ ہند کے تناظر میں ہونے والے فسادات کی منظر کشی کی۔ اس کا دیباچہ دائیں بازو کے معروف ناقد حسن عسکری نے لکھا۔ منٹو کو اپنی ان تحریروں اور دیباچہ نگار کی وجہ سے خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کتاب کے حصہ اوّل میں سیاہ حاشیے من و عن شامل ہیں جبکہ حصہ دوم میں 11 مضامین ہیں، جن کو جاوید صدیقی، شمیم حنفی، ممتاز حسین، یوسف ظفر، ڈاکٹر خالد اشرف اور ممتاز مفتی سمیت دیگر نے لکھا ہے۔

مزید پڑھیے: میرے منٹو کو کوئی بُرا نہ کہے!

چوتھی کتاب

چوتھی کتاب میں ڈاکٹر طاہر عباس نے منٹو کی سب سے مشہور کہانی ’ٹوبہ ٹیک سنگھ’ کو اپنی تحقیق کا محور بنایا اور اسی کہانی کے تناظر میں لکھی گئی تنقید اور تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے 16 مضامین شامل کیے اور یہ کہانی بھی ان مباحث کے ساتھ مجموعہ میں شامل ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ’بشن سنگھ’ اس تحقیق کے ذریعے مزید وضاحت کے ساتھ قارئین کے سامنے آیا۔

ڈاکٹر طاہر عباس کا کہنا ہے کہ منٹو کی کہانیوں کے مزید کئی ایسے کردار ہیں، جن پر ایک ایک کرکے کئی کتابیں مرتب کی جاسکتی ہیں، کیونکہ ان کرداروں پر انفرادی حیثیت میں اتنا کچھ لکھا گیا ہے، جس کا مجموعہ کتابی صورت میں آنا چاہیے، وہ خود بھی یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ اس تناظر میں منٹو کے کرداروں کی بازیافت میں تحقیق کو مزید آگے بڑھائیں گے۔

ہندوستانی فلم ساز ’نندیتا داس’ کی فلم ’منٹو’ کا کلائمکس بھی ٹوبہ ٹیک سنگھ کی کہانی پر منحصر ہے۔ ہرچند کے سعادت حسن منٹو نے 1936ء میں افسانہ نگاری کی ابتدا کی تھی اور تقریباً 238 افسانے لکھے، لیکن تقسیمِ ہند کے بعد منٹو کے قلم نے، حساسیت کی جس تیز دھار کے ساتھ کردار تراشے، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کتاب میں وارث علوی، محمد حمید شاہد، ڈاکٹر شکیل الرحمٰن، ایم خالد فیاض اور دیگر مضامین نگاروں نے منٹو کی نت نئی جہتیں دریافت کیں۔ اسی تحقیق کے مطابق منٹو کے اپنے سب سے زیادہ 5 پسندیدہ افسانوں میں ’ہتک‘، ’موذیل‘، ’ممی‘، ’بابو گوپی ناتھ‘ اور ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ شامل تھے۔

پانچویں کتاب

پانچویں کتاب کا عنوان ہے ’بغیر عنوان کے: منٹو’۔ اس کتاب میں منٹو کا واحد ناولٹ بھی شائع کیا گیا اور ساتھ میں اس پر ہونے والے 6 نمایاں مباحث شامل کیے گئے ہیں۔ ان مضامین نگاروں میں ڈاکٹر یوسف سرمست، ڈاکٹر برج پریمی اور ڈاکٹر ممتاز احمد خان سمیت دیگر شامل ہیں، بلکہ ڈاکٹر برج پریمی کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ منٹو نے ایک اور ناول بعنوان ’تکلیف’ بھی لکھا تھا جو ادھورا رہ گیا اور پھر گم بھی ہوگیا، لیکن ابھی تک اس بات کی کسی تحقیق سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ اس ناولٹ ’بغیر عنوان کے’ میں 8 ابواب ہیں اور اس کا مرکزی کردار سعید ہے، جس کی ذہنی و جذباتی کیفیت اور اس سے پیدا ہونے والی کشمکش کی نفسیاتی حالت کو بیان کیا گیا ہے، وہ ایک ایسی عورت کی تلاش میں ہوتا ہے، جس میں اچھی طوائف اور نیک بیوی والی خصوصیات مشترکہ طور پر دستیاب ہوں۔

چھٹی کتاب

چھٹی کتاب کا عنوان ‘منٹو عورتیں‘ ہیں۔ اس سے مراد ان کی کہانیوں کے نسوانی کردار ہیں، جس پر جامع ترین تحقیق ڈاکٹر روش ندیم کی ہے، جس کا اعتراف ڈاکٹر طاہر عباس نے بھی کیا ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر روش ندیم کے ایک جامع مضمون کے ساتھ ساتھ دیگر 18 مضامین کو کتاب کا حصہ بنایا ہے، جن کے لکھنے والوں میں انیس ناگی، شموئل احمد، شہلا نقوی، فہمیدہ ریاض، ممتاز شیریں، وزیر آغا سمیت دیگر شامل ہیں۔ اس تحقیق میں منٹو کے جن نسوانی کرداروں کا تذکرہ آیا، ان میں سوگندھی، موذیل، سلطانہ، نیلم، جانکی، زینت، بیگو، شاردا، سکینہ، شانتی، سریتا، سراج، پھاتو، عیدن، رکما، شوبھا، کلونت کور، مائی جنتے، مسز ڈی سلوا، مسز اسٹیلا جیکسن اور دیگر نسوانی کردار ہیں۔

9 کتابوں کے سرورق
9 کتابوں کے سرورق

ساتویں اور آٹھویں کتاب

ساتویں اور آٹھویں کتابوں کے موضوعات منٹو کے ڈرامے اور فلمیں ہیں۔ دونوں کتابوں میں مباحث کو جمع کیا گیا ہے۔ ‘منٹو ڈرامے’ میں 18 مضامین، جبکہ ’منٹو فلمیں‘ میں 13 مضامین کے علاوہ منٹو کی رحلت پر فلمی دنیا میں جن معروف لوگوں نے تعزیت کی، وہ تاثرات بھی کتاب کا حصہ بنائے گئے ہیں اور منٹو کے فلمی دنیا کے بارے میں اپنے خیالات کے علاوہ منٹو کی پہلی لکھی گئی فلم ‘غالب’ کا خلاصہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر عباس نے منٹو کے ریڈیو کے لیے لکھے ہوئے ڈراموں، ریڈیائی فیچرز کی تحقیق کے ساتھ ساتھ فلمی دنیا میں ان پر جو تحقیق ہوئی، اس کو بھی وضاحت سے پیش کردیا اور اپنے ہم عصر محقق ’پرویز انجم’ جنہوں نے منٹو شناسی میں فلم کے پہلو پر گراں قدر کام کیا ہے، ان کے کام کا بھی ڈاکٹر طاہر عباس نے کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔

مزید پڑھیے: منٹو اور فلمی دنیا

نویں کتاب

آخری اور نویں کتاب کا عنوان ’منٹو شاریہ’ کے عنوان سے توضیحی فہرست، کتب، رسائل، مقالات و مضامین کی تفصیل دے دی ہے، تاکہ دیگر محققین اور طلبا بھی اس سے مستفید ہوسکیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر طاہر عباس، ڈاکٹر علی ثنا بخاری کے اس تناظر میں کیے گئے کام کے معترف نظر آئے، وہ کام ان کے ڈاکٹریٹ کا مقالہ تھا۔ زیرِ نظر کتاب منٹو شناسی کی تحقیق میں آگے جانے کے لیے مشعل راہ کا کام کرے گی۔

ڈاکٹر طاہر عباس کی گزشتہ 2 دہائیوں سے منٹو شناسی کی دیوانگی نے قارئین، طلبہ اور اہلِ ادب کے لیے نت نئے در وا کیے ہیں۔ ان مندرجہ بالا کتابوں کے علاوہ بھی منٹو کے مزید کئی پہلوؤں پر ان کا تحقیقی سفر جاری ہے۔ وہ ڈاکٹریٹ مکمل کرنے کے بعد بھی اپنی تحقیق کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا پیشہ ورانہ تعلق تدریس سے ہے اور ہزاروں طلبہ ان سے فیضیاب ہوچکے ہیں۔

وہ تدریس کے سلسلے میں جنوبی پنجاب کے دُور دراز علاقوں میں بھی تدریسی ملازمت کی وجہ سے جاتے ہیں، ایسے مقامات جہاں انٹرنیٹ کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہوتی، اس کے باوجود وہ اپنے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب ان کی آنے والی کتابوں میں جن موضوعات کو شامل کیا گیا ہے، ان میں منٹو کے مغربی حوالے، تراجم، حقیقت نگاری، ترقی پسندی، مقدمات، فلمی دنیا پر تحقیق شامل ہے۔ موجودہ 9 کتابیں اور دیگر زیر طبع کتابوں کی اشاعت ‘عکس پبلی کیشنز، لاہور’ نے کی ہے۔


حوالہ جات:

  • منٹو مباحث، ڈاکٹر طاہرعباس، عکس پبلی کیشنز، لاہور
  • منٹو صدی، ڈاکٹر عائشہ جلال، نصرت جلال، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
  • منٹو اور سینما، پرویز انجم، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
  • منٹو کی عورتیں ، ڈاکٹر روش ندیم، فکشن ہاؤس، لاہور
  • کلیات منٹو، ڈاکٹر امجد طفیل، نریٹیوز پبلشرز، اسلام آباد
  • سعادت حسن منٹو تحقیق، ڈاکٹر علی ثنا بخاری، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی
  • پورا منٹو، شمس الحق عثمانی، اوکسفرڈیونیورسٹی پریس، کراچی
  • منٹو نمبر،ادبی رسالہ نقوش، لاہور

تبصرے (0) بند ہیں