84 سال کی عمر میں ایک صبح وہ اٹھا اور بندوق تھامے گھر سے نکل آیا۔

لیکن کیا یہ کہانی یہاں سے شروع ہونی بھی چاہیے یا نہیں کہ جب اس کہانی کا مرکزی کردار بالکل بوڑھا پھوس ہوچکا ہے اور بندوق تھامنے والے اس کے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ پورے 6 ماہ بعد وہ اپنے گھر کی دہلیز پار کر رہا تھا تو اس کی بہو نے اونچی آواز میں پکار کر پوچھا تھا کہ وہ کہاں جارہا ہے۔ لیکن اس کے کان اب بہت کم آوازیں سنتے تھے اور جب وہ غصے میں ہوتا تو اسے کسی کی بھی آواز سننا پسند نہیں تھا۔

یہ کہانی اس صبح سے کیوں شروع کی جائے کہ جب اس بوڑھے کردار کو محلے کے مولوی نے گلی سے گزرتے دیکھا تو پوچھا کہ وہ اتنی صبح بندوق تھامے کہاں جا رہا ہے؟ بوڑھے نے مولوی کو ایسی نگاہ سے دیکھا کہ اس کا اندر تک لرز گیا، کیا یہ بوڑھا اپنی جوانی کا ظلم دہرانے جا رہا ہے؟ مولوی نے سوچا لیکن کچھ کہے بغیر مسجد کے اندر چلا گیا۔

84 سال کی عمر میں جب آدمی کو ہر لمحہ اپنی جان کی فکر کھائے جاتی ہے، ایسے میں کوئی آدمی کسی اور کی جان لینے کا کیسے سوچ سکتا ہے؟ پکی سڑک تک آتے آتے بوڑھا ہانپنے لگا۔ اس نے بندوق نیچے رکھی اور سڑک کنارے بیٹھ گیا۔ کھانسی کا ایک شدید دورہ اس پر حملہ آور ہوا، سانس بحال کرتے کرتے اتنی دیر ہوگئی کہ دُور پہاڑوں کی اوٹ سے سورج جھانکنے لگا۔ اس نے پھر اٹھنے سے پہلے بندوق کو دیکھا، آخری بار شاید یہ 40 سال پہلے چلی تھی۔ ایک گولی چلانے کے بعد وہ پہاڑوں اور ویرانوں میں گھومتا رہا تھا جہاں اسے اپنے بیوی بچے یاد آتے تھے۔

مزید پڑھیے: افسانہ: اختتام

اسے وہ واقعہ یاد آگیا جب اس سے قتل ہوگیا تھا، خاندانی دشمنی تھی، وہ یہ کیسے برداشت کرلیتا کہ مخالف اسے بھرے بازار میں گالی دے کر چلا جائے۔ 40 سال پہلے وہ اس دن لڑائی کی نیت سے گھر سے نہ نکلا تھا لیکن بندوق اس کے پاس تھی۔ حالانکہ جرگے نے فیصلہ کردیا تھا کہ اب دونوں خاندان آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کریں گے اور پہلے سے ہوئے قتل کے بدلے مخالف اپنی ایک لڑکی کی شادی اس کے بیٹے کے ساتھ کریں گے۔ یہ لڑکی وہی عورت ہے جو آج صبح بوڑھے سے پوچھ رہی تھی کہ وہ بندوق اٹھائے کہاں جا رہا ہے۔

جرگے کے فیصلے کو ہوئے ایک سال ہی ہوا تھا کہ مخالف خاندان کے ایک نوجوان سے بازار میں اس کی مدبھیڑ ہوگئی۔ اس کا خون کھول اٹھا اور لمحوں میں اس نے بندوق تان کر گولی داغ دی۔ گولی عین دل کے مقام پر لگی اور نوجوان کو چیخنے تک کا بھی لمحہ میسر نہ ہوسکا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہرطرف خون پھیلنے لگا تھا، چند لمحے اسے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی دکھ کا بہت گہرا پہاڑ اس کے اندر اتر گیا ہے۔ اس سے ایک انسان کا قتل ہوگیا تھا۔ وہ دوڑنے لگا۔ حتٰی کہ وہ ویرانوں میں جا پہنچا جہاں اکثر مجرم جرم کے ارتکاب کے بعد پناہ لیتے تھے۔ وہ کئی مہینے وہاں مفرور رہا، پھر جرگہ بیٹھا اور مخالف خاندان نے 2 مربع زمین اور اس کی چھوٹی بیٹی کے عوض اسے معاف کردیا۔

وہ جب علاقہ غیر سے واپس لوٹا تو اس نے اپنی بندوق کو بڑی لوہے کی پیٹی میں رکھ کر تالا لگا دیا اور اپنے آپ سے یہ وعدہ کیا کہ آئندہ وہ اسے ہاتھ بھی نہ لگائے گا لیکن آج صبح پیٹی کھل گئی تھی۔ جوانی میں اس کی گھنی سیاہ مونچھیں تھیں اور اس کا 6 فٹ کا لمبا قد تھا۔ قتل کرنے کے بعد جب وہ گاؤں لوٹا تو لوگ اس سے خوف کھاتے تھے، بچے اسے دُور سے دیکھ کر راستہ بدل لیتے۔

وہ بندوق کو غور سے دیکھ رہا تھا، یہ اس کے باپ کو ایک انگریز آفیسر نے تحفے میں دی تھی۔ اس کا باپ اس انگریز آفیسر کا ڈرائیور تھا۔ ایک بار شکار کھیلتے ہوئے اس کے باپ نے اس انگریز کی جان بچائی تو انگریز بہت خوش ہوا، اور یوں دس مربعے زمین اور یہ بندوق اسے تحفے میں مل گئی کہ جس کا مضبوط لکڑی کا دستہ تھا اور اس پر برطانوی ملکہ کی مہر بھی لگی ہوئی تھی۔ ڈرائیور بیٹھے بیٹھے زمیندار بن گیا تھا۔ دولت آجائے تو دشمن بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایک بار اس کا بڑا بھائی اپنی باری کے دن کھیتوں کو پانی لگا رہا تھا کہ اسی گاؤں کے زمیندار کے بیٹوں نے پانی کی غلط تقسیم کو جواز بناکر اس پر حملہ کرکے اسے مار دیا۔ یہ دونوں خاندانوں کی دشمنی کا باقاعدہ آغاز تھا۔

آج کا دن کہ جب اس کہانی کا مرکزی کردار یہ بوڑھا شخص بندوق اپنے پاس رکھے، سڑک کنارے بیٹھا ہے، ایسا اس گاؤں میں پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی بوڑھے نے اس بندوق کو اٹھایا ہو۔ اس کے لیے ہمیں ماضی کے ورق الٹتے ہوئے 50 برس پیچھے جانا پڑے گا جب اسی 84 سالہ بوڑھے کے باپ نے اپنے بڑے بیٹے کی موت کی خبر سنی تو یہی بندوق لیے وہ مخالفین کے گھر کے سامنے پہنچ گیا اور انہیں اونچی اونچی آواز میں باہر نکلنے کا کہنے لگا۔ اس کا باپ اس کی طرح دمے کا مریض تھا، وہیں چیختے چلاتے اس پر دورہ پڑا اور وہ مرگیا۔

بوڑھے کو اپنا باپ یاد آگیا، آج وہ بھی سانس کی بیماری کا مریض تھا، ذرا سا چلنے پر دل اتنی تیزی سے دھڑکتا کہ آواز کانوں میں سنائی دینے لگتی تھی۔ ‘تو کیا میں یہاں سے واپس لوٹ جاؤں؟‘ اس نے بیٹھے بیٹھے سوچا۔

’نہیں نہیں، میں اتنا کمزور نہیں ہوا کہ اپنی زمین کا قبضہ نہ چھڑوا سکوں، وہ کیا سمجھتے ہیں کہ میری بوڑھی ہڈیاں اب ہتھیار اٹھانے کے قابل نہیں رہیں اور وہ جو چاہے کرتے پھریں۔ زمین آدمی کی عزت ہوتی ہے، ایسے کیسے قبضہ کرسکتے ہیں وہ لوگ۔‘

مزید پڑھیے: افسانہ: پاگل پن کا قانون

وہ گھٹنوں پر زور دے کر اٹھا اور دشمن خاندان کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ سورج کو نکلے کافی وقت ہوچکا تھا اور لوگوں کی آمد و رفت بڑھ گئی تھی۔ ابھی دشمنوں کا گھر کافی فاصلے پر تھا لیکن اسے اپنی ٹانگوں میں درد محسوس ہونے لگا، سانس پھر پھولنے لگی تھی، اف یہ کیا ہے، آدمی پر یہ دن بھی آنے ہوتے ہیں کہ وہ چار قدم چلنے کی سکت سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔

اس نے منصور پنساری کی دکان کے تھڑے پر بندوق رکھی اور خود دیوار کے ساتھ ٹیک لگاکر بیٹھ گیا۔

‘ٹانگیں پھیلا لوں تو شاید کچھ آرام ملے‘، وہ ہاتھوں کو بار بار بند اور کھولنے لگا۔

اس نے بندوق اٹھانے کا فیصلہ ایک ایسے دن کیا تھا جب اس کا بیٹا اور پوتا شہر گئے ہوئے تھے ورنہ وہ یقیناً اسے ایسا کرنے سے روک لیتے کیونکہ اب وہ زمین چھڑانے کے لیے قانون کی مدد لے رہے تھے لیکن بوڑھے کا خیال تھا کہ قانون ایسے معاملات میں کوئی مدد نہیں کرسکتا اور زمینوں کے قبضے بزور طاقت چھڑانے پڑتے ہیں۔

سو جب اس کا بیٹا اور پوتا مقدمے کی پیشی کے لیے شہر گئے تو وہ ساری رات جاگتا رہا۔ اسے بار بار یہ خیال آتا کہ جب اس نے پہلی بار قتل کیا تھا تو اس کے اندر ایک ایسی اداسی نے گھر کرلیا تھا کہ علاقہ غیر کے ویرانوں میں اکثر وہ رونے لگتا تھا۔ رات کو سوتے ہوئے وہ نوجوان کئی سال تک اس کے خوابوں میں آکر اسے گالیاں نکالتا رہا۔ بوڑھا خوابوں میں اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیتا لیکن پھر بھی نوجوان کی آوازیں اسے سنائی دیتی تھیں۔ کافی ڈاکٹروں سے ملاقات اور ادویات کے بعد وہ ان خوابوں سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا لیکن پھر زمین کا مسئلہ ہوگیا اور آج صبح وہ اپنی بندوق لیے مخالفین کے گھر کی طرف رواں دواں تھا۔

ٹانگیں پھیلائے ہوئے اسے کافی سکون محسوس ہوا، سردیوں کی دھوپ کس قدر فرحت انگیز ہوتی ہے۔ ساری رات کا جاگا ہوا بوڑھا ٹیک لگائے لگائے سوگیا۔

گلی سے گزرتے چند بچوں نے اس کے پاس پڑی ہوئی بندوق اٹھا لی اور چور سپاہی کھیلنے لگے۔ 40 سال پیشتر ان بچوں کے والدین جس آدمی کو دیکھ کر راستہ بدل لیتے تھے، ان کے بچے اسی آدمی کی بندوق سے چور سپاہی کھیل رہے تھے۔

ہماری کہانی کا مرکزی کردار یہ بوڑھا جو آج صبح گھر سے بندوق لے کر نکلا تھا اب منصور پنساری کی دکان کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے سورہا ہے، مکھیاں اس کے چہرے پر بھنبھنا رہی ہیں اور مدتوں بعد آج پھر وہی نوجوان اس کے خوابوں میں آکر کہنے لگا کہ ’جس دن تم نے مجھے گولی ماری اس سے اگلے دن میری شادی تھی، پھر وہ اسے گالیاں نکالنے لگا’۔ بچے چور سپاہی کھیلتے ہوئے اِدھر سے اُدھر دوڑ رہے تھے۔

بوڑھا وہاں آدھا گھنٹہ سوتا رہا اور جب وہ جاگا تو پنساری کی دکان کے تھلے سے بندوق غائب تھی۔ وہ دیوار کا سہارا لے کر اٹھا۔ ایک ٹیس سی اس کے گھٹنوں سے نکلی، آج وہ ضرورت سے زیادہ اور تیز رفتار سے چلا تھا، اب جوڑ درد کرنے لگے تھے۔

تبھی اس کی نظر بچوں پر پڑی جو اس کی ملکہ برطانیہ کی مہر والی بندوق ہاتھوں میں لیے دوڑ رہے تھے۔

‘رُکو، میں کہتا ہوں رُکو۔ تمہاری جرأت کیسے ہوئی میری بندوق کو ہاتھ لگانے کی‘، وہ چلّایا۔

بچوں نے بندوق وہیں پھینکی اور اس کی نقلیں اتارتے ہوئے وہاں سے بھاگ گئے۔

بوڑھے نے بندوق اٹھائی، اس کا چیمبر چیک کیا تو وہاں کوئی گولی موجود نہیں تھی۔

‘تو کیا میں گولیاں لانا بھول گیا ہوں؟’

آہ یہ کس قدر افسوسناک ہے کہ آدمی اتنی دُور مشقت کاٹ کر آئے اور گولیاں لانا ہی بھول جائے۔

وہ واپس لوٹنے کے لیے مڑا لیکن ٹانگوں میں شدید درد کی لہر اُٹھی اور وہ پھر دیوار کے ساتھ ٹیک لگاکر بیٹھ گیا۔

منصور پنساری نے اسے دیکھا تو پوچھا ‘بزرگو خیریت تو ہے، آپ یہاں بیٹھے ہیں؟’

وہ جو درد کی شدت سے دہرا ہورہا تھا چلّایا کہ ‘کیا تمہارے پاس کوئی ہڈیوں کے درد کی دوا ہے؟’

‘ہاں ہاں، ایک تیل موجود ہے، جیسے ہی لگائیں آرام آجاتا ہے‘۔

‘جلدی سے جاؤ اور لے آؤ، آج بچے گھر پر نہیں تھے، خود یہاں تک آنا پڑا۔ ذرا جلدی کرنا اور کسی رکشے والے کو کہو مجھے گھر تک چھوڑ آئے۔ ایسا درد تو زندگی میں کبھی نہیں اُٹھا۔‘

مزید پڑھیے: افسانہ: طوفان کی دستک

اسے آج سے پہلے اپنی ناکامی اور کمزوریوں کا ایسا احساس کبھی نہیں ہوا تھا، اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ منصور پنساری کی دکان کے پاس بیٹھے بیٹھے ہی یکدم بوڑھا ہوگیا ہے اور وہ جب گھر سے نکلا تھا تو اتنا بوڑھا نہیں تھا۔ اسے اپنے اردگرد بچے ہنستے اور نقلیں کرتے ہوئے دکھائی دینے لگے۔

جب وہ رکشے پر سوار اپنے گھر لوٹا تو ایک گہرے بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔ یہ کیا زندگی ہے کہ وہ 4، 5 گلیوں تک کا فاصلہ طے نہ کرسکا حالانکہ کل رات جب وہ ذہن میں منصوبہ بنارہا تھا تو اس کے ذہن میں ایک بار بھی ایسا خیال نہ آیا کہ وہ کھانس کھانس کر واپس آجائے گا۔

گھر کی دہلیز پار کرتے ہی اس کی بہو نے پوچھا ‘چاچا جی آپ کہاں چلے گئے تھے؟ میں پیچھے سے آوازیں دیتی رہی اور آپ نے سنا ہی نہیں'۔

اس نے بہو کو دیکھا، یہ بھی تو اسی دشمن خاندان کی ہے، اس کو بھلا وہ کیسے بتاسکتا تھا کہ وہ کس ارادے سے گھر سے نکلا تھا اور اب کھانس کھانس کر واپس لوٹ آیا تھا۔

وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا اور چارپائی پر گرگیا۔ وہ ایک گہرے بوجھ تلے دب گیا اور اس کی ٹانگوں نے تھوڑا بہت چلنے سے بھی انکار کردیا۔

اس کے بعد سے ہماری کہانی کا مرکزی کردار وہ بوڑھا کبھی بھی اپنی چارپائی سے نہ اُترا حتٰی کہ لوگ اسی چارپائی پر سوار اسے قبرستان چھوڑ آئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں