وفاق کے سندھ کے جزائر کا انتظام سنبھالنے کے اقدام پر تنقید

اپ ڈیٹ 06 اکتوبر 2020
بلاول بھٹو نے کہا کہ ان کی جماعت حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کرے گی—فائل فوٹو: ڈان نیوز
بلاول بھٹو نے کہا کہ ان کی جماعت حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کرے گی—فائل فوٹو: ڈان نیوز

کراچی: صدر مملکت عارف علوی نے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر ایک آرڈیننس نافذ کیا ہے جس کا مقصد وفاق کو سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کا کنٹرول سنبھالنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تاہم اس پر سخت تنقید کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس اقدام کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیرقانونی الحاق کے مترادف قرار دیا ہے۔

اگرچہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے اس معاملے کو منظر عام سے دور رکھنے کی کوشش کی تاہم بلاول بھٹو زرداری نے اس حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنی ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ ان کی جماعت قومی اسمبلی، سینیٹ سمیت صوبائی اسمبلی میں بھی حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کرے گی۔

مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد

واضح رہے کہ صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا تھا۔

بعد ازاں صرف دو ہفتوں بعد ہی صدر عارف علوی نے ریئل اسٹیٹ ٹائکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔

خیال رہے کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا۔

پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی، جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔

وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر ’جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے'۔

پاکستان آئرلینڈ ڈیولیپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

آرڈیننس کے مطابق اتھارٹی قیام کے بعد کے 10 سال تک انکم ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنیٰ ہوگی، جیسا کہ دفعہ 30 میں لکھا ہے کہ 'کسی بھی دوسرے قانون میں درج ہونے کے باوجود، نوٹیفکیشن کے جاری ہونے کے اگلے 10 برسوں تک اتھارٹی اس کی آمدنی، منافع پر ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنی ہوگی'۔

پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے افعال پر سرسری نظر ڈالیں تو آرڈیننس میں بتایا گیا ہے کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔

آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے۔

اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکھٹے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے۔

مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے۔

پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔

پیپلز پارٹی کا ردعمل

دوسری جانب اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئٹ کی کہ ان کی جماعت پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ سندھ اسمبلی میں بھی حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کرے گی۔

اس اقدام کو ’پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سندھ کے جزائر کا غیر قانونی الحاق' قرار دیتے ہوئے انہوں نے ٹوئٹ میں لکھا کہ ’میں پوچھتا ہوں کہ یہ اقدام مقبوضہ کشمیر میں مودی کے اقدام سے کس طرح مختلف ہے؟'

دریں اثنا، سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘۔

رضا ربانی نے اس آرڈیننس کے نفاذ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: 2 بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کیلئے کنسورشیم تشکیل

انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہے تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے‘۔

انہوں نے اس خیال کا اظہار بھی کیا کہ یہ آرڈیننس 18ویں ترمیم کو ختم کرنے اور صوبوں کو ان کی جائز اراضی سے محروم رکھنے کی ایک اور کوشش ہے۔

رضا ربانی کا مزید کہنا تھا کہ یہ آرڈیننس نہ صرف آئین بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کی بھی خلاف ورزی ہے۔


یہ خبر 6 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں