بحریہ ٹاؤن پر ملیر کے گوٹھوں پر قبضے کی کوشش کا الزام

اپ ڈیٹ 06 اکتوبر 2020
سروے آف پاکستان میں گاؤں کے باشندوں کی زمینی ملکیت اور استعمال کے حقوق کو نوٹیفائیڈ اور محفوظ کردیا گیا تھا—فائل فوٹو: بحریہ ٹاؤن ویب سائٹ
سروے آف پاکستان میں گاؤں کے باشندوں کی زمینی ملکیت اور استعمال کے حقوق کو نوٹیفائیڈ اور محفوظ کردیا گیا تھا—فائل فوٹو: بحریہ ٹاؤن ویب سائٹ

کراچی کی قدیم آبادیوں اور شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان نے ریئل اسٹیٹ جائنٹ بحریہ ٹاؤن کو ضلع ملیر کے گوٹھوں کی زمین پر زبردستی قبضہ کر کے دور دراز آبادیوں کے قدیم باشندوں کو بے گھر کرنے کا مورد الزام ٹھہرایا ہے۔

کراچی پریس کلب پر کراچی بچاؤ تحریک نامی پلیٹ فارم کے تحت ایک پریس کانفرنس میں مقامی رہائشی حفیظ بلوچ کے ہمراہ خطاب کرتے ہوئے عوامی ورکرز پارٹی کی لیلیٰ رضا اور اریبہ اشفاق کا کہنا تھا کہ 2 اکتوبر کو اپنے آپ کو بحریہ ٹاؤن کے اہلکار ظاہر کرنے والے 3 آدمی کچھ پولیس اہلکاروں کے ساتھ مل کر بزور طاقت ضلع ملیر کے دیہہ لنگیجی کے حاجی علی محمد گوٹھ میں داخل ہوئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے بتایا کہ ان افراد نے بھاری مشینری بشمول ایکسکیویٹر اور بلڈوزر کے ساتھ گاؤں کے رہائشیوں کی زمین خالی کروانے اور اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور گزشتہ ماہ وہ دیگر گوٹھوں مثلاً علی داد گبول گوٹھ میں اس طرح کے کام کرچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی: لالچ اور قبضے کا لامحدود سلسلہ

حقوق کے کارکنان نے امکان ظاہر کیا کہ وہ رہائشیوں کی اجازت یا عدالتی حکم کے بغیر داخل ہوئے اور ممکنہ طور پر وہ پاکستان پینل کوڈ کے تحت متعدد جرائم انجام دے چکے ہوں گے جس میں مجرمانہ سرقہ، استحصال، دھوکا دہی، مجرمانہ دھمکیاں، تلفی اور پریشان کرنا شامل ہیں۔

مقررین نے کہا کہ حاجی علی محمد گوٹھ اور علی داد گبول گوٹھ میں مقامی افراد 70 سال سے مقیم ہیں جنہوں نے زمین کو کاشت کاری اور پییداواری مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

مزید یہ کہ سروے آف پاکستان میں گاؤں کے باشندوں کی زمینی ملکیت اور استعمال کے حقوق کو نوٹیفائیڈ اور محفوظ کردیا گیا تھا، پروین رحمٰن اور اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی کوششوں سے متعدد دیگر گوٹھوں کو بھی ریگولرائز کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ متاثرہ گاؤں کے اطراف کی زمین متعدد قدیم مقامات اور قبرستانوں، برابر میں کیرتھر نیشنل پارک ہونے کی وجہ سے بہت تاریخی، سماجی، ثقافتی اور معاشی اہمیت کی حامل ہے۔

مزید پڑھیں: ڈان تحقیقات: بحریہ ٹاؤن و دیگر کی بے لگام لالچ

لیلیٰ رضا کا کہنا تھا کہ ’یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ بحریہ ٹاؤن نے اس گاؤں اور دیگر گوٹھوں کے رہائشیوں کو غیر قانونی طور پر باہر نکالنے اور بلڈوز کرنے کی کوشش نہ کی ہو‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ اپریل 2019 میں یہی افراد گاؤں میں داخل ہوئے اور 3 سے 4 گھروں کی نشاندہی کر کے وہاں اپنی سڑک تعمیر کرنے کی دھمکی دی، اسی دوران انہوں نے 2 پولٹری فارمز کو تباہ، مویشیوں کو چرانے اور اپنی املاک کا دفاع کرنے والے رہائشیوں کے ساتھ بدسلوکی اور دھمکیاں دیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 2016 میں بحریہ ٹاؤن کراچی کے عہدیداران نے گوٹھ کے مقامی قبرستان کو تباہ، کنویں کو نقصان پہنچا کر اور مقامی افراد کی پانی تک رسائی روک کر ایک سڑک تعمیر کی تھی جس کی وجہ سے رہائشیوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

اس کے ساتھ ان عہدیداروں نے پولیس اہلکاروں کی معاونت سے گاؤں کے رہائشیوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے خلاف جھوٹے اور مجرمانہ دفعات کے مقدمے دائر کیے جبکہ انہوں نے گاؤں کی خواتین سے سامنا ہونے پر بھی کوئی رعایت نہیں برتی۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی میں منظور شدہ پلان کے خلاف تعمیرات روکنے کا حکم

پریس کانفرنس میں اریبہ اشفاق کا کہنا تھا کہ ’یہ اس گاؤں کے رہائشیوں کے لیے ایک مسلسل بحران ہے، بحریہ ٹاؤن کراچی، سرکاری افسران، صنعتکار اور اس غیر قانونی منصوبے میں شامل تمام افراد مقامی افراد کے روزگار، اراضی، کاشت کاری اور چراہ گاہوں کے تحفظ، خواتین، ماحولیاتی، جنگلی حیات اور ثقافتی ورثوں کے حقوق سے متعلق بہت سے ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔


یہ خبر 6 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں