خرقمر چیک پوسٹ حملہ: خیبر پختونخوا حکومت نے پی ٹی ایم رہنماؤں کےخلاف کیس واپس لے لیا

اپ ڈیٹ 15 اکتوبر 2020
مذکورہ جھڑپ میں 14 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے—فائل فوٹو: رائٹرز
مذکورہ جھڑپ میں 14 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے—فائل فوٹو: رائٹرز

خیبر پختونخوا کی حکومت نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنماؤں اور اراکین قومی اسمبلی کے خلاف شمالی وزیرستان میں خرقمر آرمی چیک پوسٹ حملہ کیس واپس لے لیا۔

ایبٹ آباد میں کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) بنوں میں ہوئی جہاں حج بابر علی خان نے حکومت کی کیس واپس لینے کی درخواست منظور کی۔

واضح رہے کہ 26 مئی 2019 کو محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) بنوں ڈویژن کی جانب سے پی ٹی ایم کے ایم این ایز محسن داوڑ، علی وزیر اور دیگر رہنماؤں کے خلاف شمالی وزیرستان میں خرقمر میں ایک فوجی چوکی پر حملہ کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

مزیدپڑھیں: شمالی وزیرستان: سیکیورٹی چیک پوسٹ پر فائرنگ سے 5 اہلکار زخمی، پاک فوج

مذکورہ جھڑپ میں 14 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

علی وزیر اور محسن داوڑ اپنے حامیوں کے ہمراہ علاقے میں احتجاجی دھرنے میں حصہ لینے جارہے تھے کہ انہیں سیکیورٹی فورسز نے خرقمر چوکی پر روک لیا جس کے نتیجے میں ایک ہلاکت خیز تصادم ہوا تھا۔

بعدازاں خیبرپختونخوا حکومت نے جھڑپ کے دوران ہلاک ہونے والے خاندانوں میں معاوضے کے چیک بھی تقسیم کیے تھے۔

16 مارچ کو خیبر پختونخوا کے محکمہ قانون نے انسداد دہشت گردی عدالت بنوں میں درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت بنوں کے ضلعی پبلک پراسیکیوٹر اور اے ٹی سی بنوں کے سینئر سرکاری وکیل کے ذریعے کیس کی پیروی نہیں کرنا چاہتی۔

اے ٹی سی بنوں جج بابر علی خان نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ایبٹ آباد میں کیس کی سماعت کی اور حکومت کی درخواست قبول کرلی۔

اے ٹی سی بنوں کے سرکاری وکیل نواب زرین نے مذکور پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے درخواست منظور کرلی ہے۔

عدالت میں موجود ایک اور سینئر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ یہ مختصر سماعت تھی اور عدالت نے شکایت کنندہ کی درخواست قبول کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔

انہوں نے بتایا کہ ‘کیس واپس لیا گیا اور ملزمان کو بری کردیا گیا’۔

ایم این اے محسن داوڑ نے بھی اس پیشرفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کیس واپس لے لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: علی وزیر 8 روز کیلئے ‘سی ٹی ڈی’ کے حوالے

محسن داوڑ سمیت تمام افراد نے ایف آئی آر میں درج الزامات کی شروع ہی سے تردید کی اور اسے جھوٹا، جعلی اور سیاسی الزام تراشی سے منسوب کیا تھا۔

ان افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون کے سیکشن 7 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 302، 324، 353، 120 بی اور 109 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ کیس سے دستبرداری کا اقدام پی ٹی ایم کی جانب سے حکومت کی مذاکرات کی پیشکش قبول کرنے کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے اعتماد سازی کے اقدامات کا سنجیدگی سے مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

جون 2020 کو پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے کہا تھا کہ حکومت اعتماد کی کمی کو پورا کرنے کے لیے لازمی اقدامات اٹھائے اور یہ فریقین کے لیے ضروری ہے کہ مذاکرات شروع کرنے سے قبل اعتماد سازی کے اقدامات کیے جائیں۔

سیکیورٹی چیک پوسٹ پر فائرنگ

واضح رہے کہ 26 مئی 2019 کو بویا سیکیورٹی چیک پوسٹ پر ایک گروہ نے محسن جاوید داوڑ اور علی وزیر کی قیادت میں حملہ کردیا تھا جس کے نتیجے میں 5 فوجی اہلکار زخمی ہوئے۔

آئی ایس پی آر کے جاری بیان کے مطابق خرقمر چیک پوسٹ پر حملے کا مقصد گذشتہ روز گرفتار کیے جانے والے مبینہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو چھڑوانے کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔

بیان میں کہا گیا کہ چیک پوسٹ میں موجود اہلکاروں پر براہ راست فائرنگ کی گئی جس پر اہلکاروں نے تحفظ کے لیے جواب دیا۔

پاک فوج کے مطابق چیک پوسٹ پر براہ راست فائرنگ کے نتیجے میں 5 اہلکار زخمی ہوئے جبکہ جوابی کارروائی میں 3 افراد جان کی بازی ہار گئے اور 10 زخمی ہوئے۔

بیان میں کہا گیا کہ تمام زخمیوں کا آرمی کے ہسپتال میں علاج جاری ہے۔

پاک فوج نے بتایا کہ واقعے کے بعد علی وزیر سمیت 8 افراد کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ محسن جاوید داوڑ ہجوم کی آڑ میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔

تاہم وائس آف امریکا دیوا سے بات کرتے ہوئے محسن داوڑ نے ان کی جانب سے فائرنگ کے آغاز کے الزام کو مسترد کردیا اور آرمی پر کشیدگی کے آغاز کا الزام لگایا۔

تبصرے (0) بند ہیں