صبح ماحول انتہائی پرسکون تھا۔ ہم سیکیورٹی چیک کے بعد باغِ جناح میں قائم جلسہ گاہ میں داخل ہوئے اور میڈیا انکلوژر کی راہ لی۔ مرکزی اسٹیج کے اطراف 2 چھوٹے اسٹیج بنائے گئے تھے جہاں ضلعی قیادت کے بیٹھنے کی جگہ مختص کی گئی تھی۔

منتظمین نے جلسہ گاہ میں 50 ہزار سے زائد کرسیاں لگانے کا دعوٰی کیا تھا۔ چونکہ جلسے کا وقت شام ساڑھے 4 بجے کا رکھا گیا تھا تو ہم اندازہ لگائے بیٹھے تھے کہ کارکنان کی آمد 2 بجے کے بعد ہی ہوگی، لیکن پیپلزپارٹی کے جیالے حیران کن طور پر 12 بجے سے پہلے ہی جلسہ گاہ میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔ اس کی ایک وجہ دیگر شہروں سے آنے والے کارکنان بھی تھے، جو صرف جلسے میں شریک ہونے کراچی آئے تھے۔

سکھر، لاڑکانہ، ٹھٹہ، بدین، حیدرآباد، دادو، سیہون، جامشورو، قمبر شہدادکوٹ، رتوڈیرو، شکارپور، جیکب آباد سے کارکنان پر مشتمل گاڑیوں کے قافلے گزشتہ شب ہی کراچی پہنچ گئے تھے۔

پیپلزپارٹی کے جیالے حیران کن طور پر 12 بجے سے پہلے ہی جلسہ گاہ میں داخل ہونا شروع ہوگئے
پیپلزپارٹی کے جیالے حیران کن طور پر 12 بجے سے پہلے ہی جلسہ گاہ میں داخل ہونا شروع ہوگئے

صوبائی وزیر اویس قادر شاہ نے کراچی میں سکھر سے آنے والے قافلے کا استقبال کیا تھا۔

بدین قافلے کی سربراہی محمد اسماعیل راہو، ٹھٹہ گھارو کی سسی پلیجو، حیدرآباد کی شرجیل میمن اور مولابخش چانڈیو، شکارپور کی سربراہی اسپیکر آغا سراج درانی اور امتیاز شیخ نے کی تھی۔

یہی وجہ تھی کہ پیپلزپارٹی رہنما عاجز دھامرا صبح کے وقت ہی جلسہ گاہ میں انتظامات کا جائزہ لینے پہنچ گئے تھے۔

لاڑکانہ سے آئی خواتین بھی گزشتہ روز صرف جلسے میں شرکت کے لیے کراچی پہنچی تھیں۔ 65 سالہ حور بی بی کا حوصلہ بلند تھا۔ پُرجوش انداز میں نعرے بازی کررہی تھیں۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ آج رات ہی لاڑکانہ واپس چلی جائیں گی۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ ان کی وابستگی 1968ء سے ہے۔ پارٹی کے لیے جیل بھی کاٹی اور مظالم بھی سہے۔ حور بی بی پنڈال میں پانی کی عدم فراہمی پر نالاں تھیں اور ان کی ناراضگی بجا تھی، کیونکہ صبح سے شام ایک کرسی پر براجمان ان کو کم از کم پانی کی فراہمی انتظامیہ کی ہی ذمہ داری تھی۔

اسٹیج کے سامنے کا حصہ خواتین کے لیے مخصوص تھا۔ لاڑکانہ سے آئے اس قافلے کو دیکھ کر یوں محسوس ہوا کہ آج صرف پیپلزپارٹی کی جیالیاں ہی یہ پنڈال بھر ڈالیں گی، لیکن یہ بھی محض اندازہ ثابت ہوا کیونکہ آخر تک اسٹیج کے سامنے بائیں جانب خالی کرسیاں خواتین کی منتظر نظر آئیں۔

خواتین کے انکلوژر میں موجود خواتین کی اکثریت کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے تھا۔ یقینی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جلسے میں دیگر اتحادی جماعتوں کی خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔

اسٹیج کے سامنے بائیں جانب خالی کرسیاں خواتین کی منتظر نظر آئیں
اسٹیج کے سامنے بائیں جانب خالی کرسیاں خواتین کی منتظر نظر آئیں

خواتین کے انکلوژر میں موجود اکثریت خواتین کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے تھا
خواتین کے انکلوژر میں موجود اکثریت خواتین کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے تھا

کچھ ذکر ہوجائے مردوں کے پنڈال کا جہاں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسے کی میزبان جماعت پیپلزپارٹی کے جیالے ہی سب سے پہلے داخل ہوئے تھے۔ پارٹی ترانوں پر رقص کے ساتھ ساتھ حکومت مخالف نعرے فضاؤں میں گونج رہے تھے۔ جلسہ گاہ میں صرف پیپلزپارٹی کے ترانے بجتے سنائی دے رہے تھے۔ ایسے میں دیگر جماعتوں کے کارکنان شروعات میں صرف ہاتھ باندھے خارداری تاروں کے پیچھے جلسہ شروع ہونے کے منتظر تھے۔ معلوم نہیں کہ کسی نے انتظامیہ کو کہا یا پھر انہوں نے خود فیصلہ کیا، کیونکہ اچانک پارٹی ترانے روک دیے گئے۔ اس دوران جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کارکنان نے نعرہ تکبیر کی صدائیں لگانی شروع کردیں۔

اس مجمع میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور دیگر اتحادی جماعتوں کے کارکنان بھی موجود تھے لیکن جلسہ گاہ میں پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کے جھنڈوں کی بھرپور بہار تھی۔

دن میں جتنی جلدی کارکنان کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تھا، اسے دیکھ کر خیال تھا کہ جلسہ شروع ہونے سے پہلے ہی میدان مکمل طور پر بھر جائے گا، مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ بلکہ اگر مقررہ وقت پر جلسہ شروع کیا جاتا تو شاید عوام کی تعداد کم دکھائی دیتی۔

بہرحال سیاسی گہما گہمی عروج پر تھی۔ نمائش چورنگی سے لے کر گرومندر، نمائش سے خداداد کالونی اور نورانی کباب ہاؤس تک صرف بسیں، ہائی ایس اور گاڑیاں کھڑی دکھائی دے رہی تھیں۔ اگر جلسہ اتوار کے بجائے کسی عام دن ہوتا تو شاید ٹریفک کو قابو کرنا ایک بڑا چیلنج بن جاتا۔

میڈیا پنڈال میں پریس کانفرنس کے لیے پہلی آمد شرمیلا فاروقی اور ناصر حسین شاہ کی ہوئی۔ بعد ازاں وزیرِاعلی سندھ مراد علی شاہ ، شہلا رضا، مرتضی وہاب، پلوشہ خان سمیت دیگر اہم رہنما بھی اپنا مؤقف بیان کرنے پہنچے تھے۔

سننے میں آیا کہ او بی وین میں تکنیکی خرابی کے باعث کچھ گڑبڑ ہوئی، جس کے سبب جلسے کی تقاریر میں بھی تاخیر ہوئی۔

جیسا کے جلسے کی میزبانی پیپلزپارٹی کے پاس تھی لیکن مولانا فضل الرحمٰن کی اینٹری پر ڈی جے سے فرمائشی طور پر مولانا آرہا ہے چلوایا گیا۔ 7 بجے تمام ہی مرکزی قائدین اسٹیج پر موجود تھے۔ اس کے باوجود 9 بجے کے نیوز بلیٹن تک مریم نواز، بلاول اور مولانا فضل الرحمن کی تقاریر کا وقت نہیں آیا تھا۔ کچھ مقررین کو تقاریر مختصر رکھنے کے لیے قرعہ بھی تھمایا گیا۔

مرکزی قائدین کی تقاریر میں تاخیر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں بھی کچھ دیر کے لیے جلسہ گاہ سے پیدل سفر کرتے ہوئے نمائش چورنگی پہنچا۔ وہاں کے مناظر بالکل مختلف تھے۔

اندرون سندھ سے آئیں سیکڑوں گاڑیاں گرومندر تک کھڑی دکھائی دے رہی تھیں۔ ان گاڑیوں پر مختلف شہروں کے بینرز آویزاں تھے۔ گویا کراچی سے زیادہ پیپلزپارٹی کے کارکنان کی بڑی تعداد دیگر شہروں اور اضلاع سے کراچی آئی تھی۔

سورج ڈھل جانے کے باجود بھی قائدین کی تقاریر نہ شروع ہونے پر کم و بیش تمام ہی سیاسی جماعتوں کے کارکنان شاید وقت گزارنے کا ذریعہ تلاش کررہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نمائش چورنگی پر میلہ لگا تھا۔

ابلے ہوئے بھٹے، شکر قندی، مکئی، لیموں پانی، حلیم اور دیگر اشیا کے ٹھیلوں پر کارکنان شام کی اسنیکنگ کا لطف اٹھاتے دکھائی دیے۔

جلسے میں قائدین کی تقاریر میں معمول سے زیادہ تاخیر کی وجہ سے کئی کارکنان اپنی بسوں کا رخ کررہے تھے۔ جلسہ گاہ سے واپسی پر جے یو آئی (ف) سے تعلق رکھنے والے 2 افراد نمائش سے پیدل گرومندر کا سفر کررہے تھے۔ ایک نے دوسرے سے پنجابی زبان میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سامنے مزار قائد ہے‘۔ دوسرا شخص پہلی بار مزار دیکھ کر کافی حیران نظر آیا۔

نمائش چورنگی پر میلے کا منظر
نمائش چورنگی پر میلے کا منظر

اگر جلسہ اتوار کے بجائے کسی عام دن ہوتا تو شاید ٹریفک کو قابو کرنا ایک بڑا چیلنج بن جاتا
اگر جلسہ اتوار کے بجائے کسی عام دن ہوتا تو شاید ٹریفک کو قابو کرنا ایک بڑا چیلنج بن جاتا

مولانا فضل الرحمٰن کے اکثر کارکنان صرف ان کی اور اسی طرح پیپلزپارٹی کے کارکنان اپنے چیئرمین کی تقریر سننے آئے تھے۔ دیگر تقاریر کا دورانیہ بڑھنے کے باعث کارکنان نے باہر نکلنے میں عافیت جانی، جسے کچھ لوگوں نے یہ شکل دی کہ شرکا جلسے کو ادھورا چھوڑ کر جانے لگے۔

مردوں سے خواتین انکلوژر تک داخلے کے لیے خارداری تار سے بنی باڑ سے گزرنا پڑتا۔ پورے جلسے میں بدنظمی شاید اختتام میں کہیں ہوئی ہو، لیکن مغرب کی نماز تک نہیں دکھائی دی۔

ہاں البتہ جے یو آئی (ف) کے مولانا سمیع الحق بار بار کارکنان کو تحمل سے رہنے اور آگے نہ بڑھنے کا پیغام مرکزی اسٹیج سے مسلسل دے رہے تھے۔ انہوں نے اپنے کارکنان کو زمین پر بیٹھ جانے اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے کارکنان کو کرسیوں پر جگہ فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔

پیپلزپارٹی کے جانثاران کی ایک بڑی تعداد مرکزی اسٹیج کے سامنے ہرے رنگ کی شرٹس پہنے کھڑی تھی۔ اس کے برابر ہی خاکی رنگ میں جے یو آئی کی فورس بھی صف آرا تھی۔

مرکزی اسٹیج کے سامنے پیپلزپارٹی کے جیالے اور خاکی رنگ میں ملبوس جے یو آئی کی فورس موجود رہی
مرکزی اسٹیج کے سامنے پیپلزپارٹی کے جیالے اور خاکی رنگ میں ملبوس جے یو آئی کی فورس موجود رہی

11 جماعتی اتحاد کے اس جلسے کو لے کر چلنا یقیناً کسی چیلنج سے کم نہیں تھا، جہاں ہر لمحے پنڈال میں کچھ نیا واقعہ ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ رضا کار کبھی خواتین کے پنڈال میں ان کے جھگڑے سلجھا رہے تھے تو کبھی مردوں کو تحمل سے رہنے کی تاکید کررہے تھے۔


تصاویر: لکھاری

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں