نیوزی لینڈ اور بولیویا میں شاید اس بات کے علاوہ کچھ بھی مشترک نہیں ہے کہ یہ دونوں ہی نصف کرہ جنوبی کے نسبتاً چھوٹے ممالک ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں ان ممالک میں ہونے والے انتخابات سے متعلق خبروں نے اس وقت امید کا ایک دیا روشن کردیا ہے کہ جب ہمیں اس کی سخت ضرورت ہے۔

شاید ہی کوئی ایسا سوچ رہا تھا کہ نیوزی لینڈ کے ووٹر ان انتخابات میں جیسنڈا آرڈرن کو نظر انداز کردیں گے۔ خاص طور پر جس طرح انہوں نے کورونا کی وبا کا شاندار طریقے سے مقابلہ کیا اور 50 لاکھ آبادی والے اس ملک میں کورونا سے صرف 25 اموات ہوئیں۔

ان کی یہی کامیابی تھی جس وجہ سے دیگر ممالک کے شہریوں نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش جیسنڈا ان کے ملک کی سربراہ ہوتیں۔ لیکن اس صورتحال کے باوجود بھی کچھ ایسے لوگ تھے جو یہ چاہتے تھے کہ عالمی سطح پر ان کی مقبولیت انتخابات کے نتائج میں ظاہر نہ ہو۔

حالیہ نتائج کی بات کریں تو یہ لیبر پارٹی کے لیے گزشتہ 50 سال کے دوران حاصل کیے گئے بہترین نتائج ہیں۔ 1990ء کی دہائی کے وسط میں نیوزی لینڈ میں مخلوط انتخابی نظام کے اپنائے جانے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کسی جماعت نے تقریباً 50 فیصد عوامی ووٹ حاصل کیے ہوں۔

انتخابات کے حتمی نتائج تو ابھی آنا باقی ہیں لیکن اس بات نے بھی جیسنڈا کے ناقدین کو ان پر تنقید سے نہیں روکا۔ ان ناقدین نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ جیسنڈا نے گزشتہ انتخابات سے پہلے بچوں میں غربت اور ملک میں رہائش کی قلت دُور کرنے کے جو وعدے کیے تھے وہ آج تک پورے نہیں ہوئے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ ان الزامات میں کچھ وزن ضرور ہے، لیکن یہ الزامات ان لوگوں کی طرف سے لگائے جارہے ہیں جو سفید فام نسل پرستوں کی جانب سے کی جانے والی دہشتگردی، قدرتی آفات اور کورونا کی وبا پر جیسنڈا کے غیر مبہم اور انسان دوست ردِعمل سے لوگوں کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔

3 سال پہلے جب ان کی جماعت نے نیوزی لینڈ کی فرسٹ پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت بنائی تو اس وقت جیسنڈا ایک نوآموز پارٹی لیڈر تھیں۔ لیکن ان انتخابات میں نیوزی لینڈ کی فرسٹ پارٹی پارلیمان تک نہیں پہنچ سکی اور لیبر پارٹی اس مرتبہ اپنےطور پر حکومت بنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ گرین پارٹی کے ساتھ اتحاد کے امکانات بھی موجود ہیں۔

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ نیوزی لینڈ کوئی سوشلسٹ جنت بننے جا رہا ہے۔ جیسنڈا ایک معتدل سیاستدان ہیں اور وہ ٹرمپ، نیتن یاہو، بولسونارو، اردوان، السیسی، رودریگو دوترتے، مودی اور عمران خان جیسے سربراہان سے بہت مختلف ہیں۔

سربراہانِ مملکت کی اس فہرست میں بولیویا کی انتہا پسند سیاستدان جینائن آنیز کو شامل کرسکتے ہیں۔ جب گزشتہ سال نومبر میں چوتھی مرتبہ صدارتی انتخابات جیتنے کے بعد فوج نے بولیویا کے صدر ایوو مورالس کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا تو جینائن صدر منتخب ہوئی تھیں۔

مورالس اس سے پہلے بھی 3 مرتبہ ملک کے صدر رہ چکے ہیں۔ ان کی اصلاحات سے ایک ایسا ملک جس کے قدرتی زخائر سے غیر ملکی کمپنیاں فائدہ اٹھاتی تھیں، معاشی ترقی اور ملکی سیاست اور سماجی سرگرمیوں میں مقامی افراد کی شمولیت کا رول ماڈل بن گیا۔

اس دوران بولیویا کی جی ڈی پی میں 3 گنا اضافہ ہونے کے ساتھ غربت میں 40 فیصد اور انتہائی غربت میں 60 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اس بات کے باوجود کہ مورالس کی حکومت نے آئی ایم ایف کی تجاویز مسترد کردی تھیں، اور ورلڈ بینک نے مورالس کے اقدامات کو سراہا۔

مورالس اور سوشل ازم کے لیے ان کی چلائی گئی تحریک ونیزویلا میں ہوگو شاویز کی جیت کے بعد لاطینی امریکا میں کامیاب ترین مثال ہے۔ یہ لہر تب تک برقرار رہی جب تک امریکی حکومت نے اپنی توجہ جنوبی امریکا پر مرکوز نہیں کی۔

اس کے بعد بھی مورالس کی جماعت ایم اے ایس اپنی جگہ برقرار رہی۔ لیکن پھر مورالس ملک میں ہونے والے ایک ریفرنڈم کے نتیجے کا انکار کرتے ہوئے چوتھی مرتبہ ملک کے صدر بننے کی دوڑ میں شامل ہوگئے۔ اس ریفرنڈم میں وہ بہت ہی کم فرق کے ساتھ ہار گئے تھے۔ گزشتہ سال کے اختتام تک زرعی اور صنعتی مزدوروں کی یونین نے بھی ان کے کچھ اقدامات کی مخالفت شروع کردی۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود مورالس انتخاب جیت گئے۔

امریکا کی زیرِ قیادت اور زیرِ انتظام چلنے والی امریکی ریاستوں کی تنظیم او اے ایس، جس کا خطے میں بدنظمی پھیلانے کا ریکارڈ بہت پرانا ہے، نے فوراً ہی انتخابات میں بدنظمی کا دعویٰ کردیا۔ اس وجہ سے ملک میں مظاہرے شروع ہوگئے اور بلآخر فوج نے مورالس پر مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کردیا۔

اب تک تو حالات اسی طرح تبدیل ہورہے تھے جیسا کہ لاطینی امریکا میں ہوتے آئے ہیں اگر چہ ان میں کبھی کبھار خلل بھی پڑ جاتا ہے۔ اس وجہ سے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ اس سال ہونے والے انتخابات جن کی تاریخ پہلے ہی 2 مرتبہ آگے بڑھ چکی تھی کہیں ریاست کی مرضی کے مطابق نہ ہو رہے ہوں۔

لیکن واشنگٹن کی جلد باز انتظامیہ ان معاملات پر اپنی توجہ مرکوز نہیں رکھ سکی، اور جہاں تک اتوار کے روز ہونے والے انتخابات اور ووٹوں کی گنتی کے عمل کا تعلق ہے تو کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ یہ تمام عمل شفاف طریقے سے مکمل ہوا ہے۔ جس کے نتیجے میں الیکشن لڑنے والے فریقین نے مورالس کی ایم اے ایس پارٹی کے امیدوار اور مورالس کے ساتھ کام کرنے والے سابق وزیرِ خزانہ لوئس ارس کی فتح کو تسلیم کیا ہے۔

نیوزی لینڈ کی طرح یہاں بھی حتمی نتائج آنا باقی ہیں۔ لیکن عبوری نتائج اگرچہ کسی وسیع پیمانے پر تبدیلی کی علامت نہیں ہیں لیکن اس بات کی امید ضرور ہے کہ بولیویا میں معاشی امتیازات کو ختم کرنے اور مقامی لوگوں کو بااختیار بنانے کا نظام دوبارہ نافذ ہوسکتا ہے۔


یہ مضمون 21 اکتوبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Talha Oct 29, 2020 03:33pm
Pata nahin aisay ihsaasat hammaray dil -o-damagh mein kiun nahin aatay…...