سینیٹ میں سی پیک اتھارٹی کی قانونی حیثیت پر سوالات

اپ ڈیٹ 24 اکتوبر 2020
سینیٹ میں سی پیک اتھارٹی کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے گئے— فائل فوٹو: ڈان نیوز
سینیٹ میں سی پیک اتھارٹی کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے گئے— فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: پاک چین اقتصادی راہداری(سی پیک) اتھارٹی آرڈیننس کی توسیع کی میعاد ختم ہونے کے کئی ماہ بعد جمعہ کو سینیٹ میں سی پیک اتھارٹی کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے گئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینیٹ کے سابق چیئرمین سینیٹر رضا ربانی نے ایک توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے پوچھا 'سی پیک اتھارٹی کس قانون کے تحت کام کررہی ہے'۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت نے ’سی پیک اتھارٹی‘ کے آرڈیننس پر دستخط کردیے

انہوں نے نشاندہی کی کہ گزشتہ سال جاری کردہ اس آرڈیننس کو قومی اسمبلی نے جنوری میں ایک قرار داد کے ذریعے 120 دن کی توسیع دی تھی لہٰذا جون میں آرڈیننس کی توسیع شدہ مدت اختتام کو پہنچی۔

صدر نے 8 اکتوبر 2019 کو جاری کردہ آرڈیننس کے ذریعے 10رکنی سی پیک اتھارٹی قائم کی تھی جس کے تحت اربوں ڈالر کے روڈ اور ریل نیٹ ورک سے متعلق منصوبوں میں تیزی لائی جانی تھی جو چینی علاقوں کو بحیرہ عرب سے پاکستان کے راستے جوڑتے ہیں۔

اتھارٹی کو یہ مینڈیٹ دیا گیا تھا کہ وہ معاشی نمو کے نئے محرکات کو تلاش کرے اور علاقائی اور عالمی رابطے کے ذریعے باہمی طور پر منسلک پیداواری نیٹ ورک کی اور عالمی ویلیو چینز کی صلاحیت کو پرکھے۔

سینیٹر ربانی نے کہا کہ سی پیک اتھارٹی کے اپنے فنڈز اور بینک اکاؤنٹ ہیں اور وہ حیرت زدہ ہیں کہ ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی اور دیگر ادائیگیوں کے لیے یہ کس طرح چلایا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'جو شخص معاون خصوصی کیلئے ٹھیک نہیں، وہ سی پیک اتھارٹی کا سربراہ کیسے ہوسکتا ہے'

انہوں نے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پیڈا) آرڈیننس کے اجرا پر بھی تشویش کا اظہار کیا، انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت نے سندھ اور بلوچستان سے متعلق امور پر بحث کیے بغیر ہی آرڈیننس کو خود ہی حتمی شکل دے دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ متنازع پیڈا آرڈیننس کو "جائیدادوں اور اثاثوں کی ملکیت لینے کے لیے" کئی دن تک چھپا کر رکھا گیا تھا جہاں یہ جائیدادیں اور اثاثے ان دونوں صوبوں کے ہیں۔

سینیٹر ربانی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت آرڈیننس لاگو ہونے کے بعد اسے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے پہلے اجلاسوں کے دوران پیش کیا جانا چاہیے، انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سینیٹ کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے اسپیکر دونوں کے فیصلے موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب تک کہ کوئی قرار داد کے ذریعے ایوان اسے مسترد نہ کردے اس وقت تک آرڈیننس 120 دن تک نافذ العمل رہتا ہے، انہوں نے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی سے کہا کہ وہ یا تو وزارت سمندری امور کو ایوان میں آرڈیننس لانے کا حکم دیں یا استحقاق کی خلاف ورزی سے متعلق اپنی تحریک متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیں۔

مزید پڑھیں: چین ہاؤسنگ اسیکم کے لیے 10 کروڑ ڈالردینے کو تیار ہے، چیئرمین سی پیک اتھارٹی

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پارلیمنٹ کو وہ کرنے کی اجازت نہیں جو اسے خود سے کرنا چاہیے، اس کے بعد آرڈیننس پیش کرنے میں تاخیر پر حزب اختلاف کے اراکین احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ ہوگئے۔

متعلقہ وزیر کی عدم موجودگی میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ سی پیک ملک کا 'فلیگ شپ پروگرام' ہے اور اس کو 'آگے لے جایا جائے گا'حالانکہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ یہ ناکام ہو جائے۔

ایوان میں پیڈا آرڈیننس پیش کرنے میں تاخیر پر انہوں نے آئین کے آرٹیکل 89 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اس کے اجراء کے 120 دن کے اندر آرڈیننس رکھ سکتی ہے، حکومت یہ کام مقررہ مدت کے اندر کرے گی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ سندھ کابینہ نے 6 جولائی 2020 کے اجلاس میں 'مذکورہ اراضی وفاقی حکومت کو فراہم کرنے' کا فیصلہ کیا تھا اور یہ فیصلہ مرکز کو ایک خط کے ذریعے پہنچایا گیا تھا۔

'رضا ربانی کو اپنی پارٹی کی سندھ حکومت کو کابینہ کے فیصلے کا احترام کرنے کا مشورہ دینا چاہیے'۔

حزب اختلاف کے اراکین کے ایوان میں واپس آنے کے بعد سینیٹر ربانی نے کہا کہ حکومت سندھ کے خط میں کچھ شرائط و ضوابط کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ وفاقی حکومت نے 2 ستمبر کو صوبائی حکومت سے مشاورت کیے بغیر اس آرڈیننس کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک کو ہر قیمت پر مکمل کیا جائے گا، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ اس آرڈیننس کو نہ تو سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا اور نہ ہی میڈیا سے 3 اکتوبر کو عوامی سطح پر آنے تک شریک کیا گیا تھا، انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ نے اپنا خط واپس لے لیا ہے کیونکہ شرائط و ضوابط پر اتفاق رائے نہیں ہوا تھا۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر کا مؤقف تھا کہ حکومتی وزیر نے آئین کی غلط ترجمانی کی ہے کیونکہ 120 دن کی مدت صرف اس لیے دی گئی ہے تاکہ آرڈیننس نامنظور کرنے کی قرارداد پیش کی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اگر وزیر کے دعوے کو قبول کرلیا جاتا ہے تو حکومت اس آرڈیننس کے نفاذ کے 120ویں دن بعد ہی اسے مرتب کر سکتی ہے، اس طرح ایوان کو نامنظوری کی قرارداد پیش کرنے کے آئینی حق سے محروم کردیا جائے گا۔

بعد ازاں اجلاس کو پیر تک کے لہے ملتوی کردیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں