یہ آج سے ٹھیک 3 سال پرانی بات ہے کہ ’4chan‘ نامی ویب سائٹ پر کچھ پیغامات شائع کیے گئے۔ ان پیغامات میں ریاست در ریاست یعنی ڈیپ اسٹیٹ کے خلاف صدر ٹرمپ کی خفیہ جنگ کے بارے میں عوام کو آگاہی دینے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ ان پیغامات کو شائع کرنے والے نے اپنی شناخت انگریزی حرف ’کیو‘ (Q) سے کروائی تھی۔

2016ء کے پیزا گیٹ اسکینڈل سے شروع ہونے والے یہ سازشی نظریات اب ’QAnon‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ نظریات ایک عقیدے کی سی حیثیت حاصل کرچکے ہیں جو امریکا کے باہر بھی پھیلا ہوا ہے۔

ان سازشی نظریات کے مطابق امریکا میں ایک ایسی خفیہ تنظیم موجود ہے جو بڑے پیمانے پر بچوں کو اغوا کرتی ہے۔ یہ تنظیم ناصرف ان بچوں سے بدفعلی کرتی ہے بلکہ انہیں اپنی خوراک بھی بناتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ ایک ایسا آدم خور طبقہ ہے جس میں کلنٹن، اوباما اور شاید جو بائیڈن خاندان اور ہولی وڈ کی لبرل شخصیات سمیت وہ تمام مشہور افراد شامل ہیں جو ٹرمپ کے مخالف ہیں۔

مزید پڑھیے: امریکی کس کو ووٹ دیں؟ ٹیکس چھوٹ دینے والے نسل پرست کو یا ٹیکس لگانے والے لبرل کو؟

اکتوبر کے آغاز میں وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک تقریب کے بعد صدر ٹرمپ نے ’اکتوبر سرپرائز‘ کے طور پر یہ خبر دی کہ وہ کورونا کا شکار ہوگئے ہیں۔ یہ تقریب بنیادی طور پر اس بات کی خوشی منانے کے لیے تھی کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون امریکی سپریم کورٹ کی جج نامزد ہوئیں تھیں۔ Q یونیورس میں اس پورے کام کو بہت چالاک چال کے طور پر دیکھا گیا۔ تاہم سازشی نظریات کی دنیا میں اس تقریب اور پھر ٹرمپ کے کورونا میں مبتلا ہونے کو یوں دیکھا گیا کہ صدر ٹرمپ نے خود کو منظر سے اوجھل کرلیا ہے اور اب اس جنگ میں ان کے سپاہی ٹرمپ کے دشمنوں کو پکڑ لیں گے تاکہ بعد میں انہیں قتل کروایا جاسکے۔ اور یوں معاملہ حل!

سازشی نظریات رکھنے والے دیگر لوگوں کی طرح ’Q‘ کے حامی افراد جنہیں ’QAnonists‘ کہا جاتا ہے، اپنے خیال کے مطابق حالات کے رونما نہ ہونے پر گھبرائے نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عظیم بیداری صرف ملتوی ہی ہوئی ہے اور ان کا مسیحا ایک نہ ایک دن ضرور آئے گا۔

دیکھنا یہ ہے کہ اگر ان کے مسیحا کو 3 نومبر کے دن شکست کا سامنا کرنا پڑا تو ان کا کیا ردِعمل ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ افراد اس کو ڈیپ اسٹیٹ کی عارضی فتح سے تعبیر کریں اور اس بات پر خوش ہوجائیں گے کہ ریپبلکن پارٹی کی وجہ سے ان کے ہم خیال افراد کانگریس میں موجود ہیں۔

وہ شاید امریکی کانگریس سے وابستہ QAnon کے پیروکاروں کی کامیابی پر خوش ہوں گے، لیکن اصل شکریہ تو ریپبلکن پارٹی کا ہے جنہوں نے ٹرمپ کو اس زبردست طریقے سے تھاما ہوا ہے جتنا ان کی بیوی ملانیا نے بھی نہیں تھاما۔

آنے والے انتخابات میں اگر نتائج غیر متوقع ہوئے تو ’بوگلو بوائز‘ اور ’پراؤڈ بوائز‘ جیسی سفید فام نسل پرست ملیشیا خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔ جو بائیڈن کے ساتھ ہونے والے پہلے مباحثے میں ٹرمپ نے پراؤڈ بوائز کو تیار رہنے کا بھی کہا تھا، یعنی شکست کی صورت میں یہ ایک دھمکی تصور کی گئی تھی۔ ویسے تو خود ’QAnonists‘ پر بھی یہ الزام ہے کہ وہ گزشتہ 2 سالوں میں پُرتشدد کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔ اگر ایک بار پھر خانہ جنگی کا نعرہ لگا تو ان میں سے بھی کچھ افراد اس میں حصہ لیں گے۔

مزید پڑھیے: تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکا ’نازک دور سے گزر رہا ہے‘

ظاہر ہے کہ 3 نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ لگتا ایسا ہے کہ کورونا کی وبا پر ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے دیا جانے والا ردِعمل، جو کسی بھی معیار پر قابلِ قبول نہیں تھا ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرچکا ہے۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حالات اب بدل چکے ہیں اور معیارات تبدیل ہوچکے ہیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ ’Q‘ کی جانب سے کورونا کو ایک ڈرامہ قرار دینے کا بیان امریکا اور اس کے باہر بھی مقبول ہوا۔ ’Q‘ کا کہنا تھا یہ 5G انٹرنیٹ اور چین کے ساتھ ڈیپ اسٹیٹ کا کیا دھرا ہے جس کا مقصد فرد کی آزادی کو محدود کرنا ہے۔

ٹرمپ کا خیال تھا کہ والٹر ریڈ ہسپتال سے واپسی پر باہر نکلتے ہوئے وہ بظاہر کمزور اور پریشان دکھیں گے اور پھر عوام کے سامنے پُرجوش طریقے سے اپنی قمیض کھول کر اندر پہنی ہوئی سپرمین کی ٹی شرٹ دکھائیں گے، اور اس سارے عمل کو انہوں نے بہت چالاک تصور کیا۔ لیکن بدقسمتی سے ان کے مشیران نے اس خیال کو رد کرکے انہیں صرف وائٹ ہاؤس کی بالکونی سے ہی لوگوں کو ہاتھ ہلانے پر قائل کرلیا۔

ٹرمپ کی ان تمام تر کوششوں کے باوجود بھی 3 نومبر کو ان کی جیت حتمی نظر نہیں آرہی۔ ٹرمپ اپنے مخالف امیدوار جو بائیڈن کو سوشلسٹ اور ان کے ساتھ نائب صدر کی امیدوار کیملا ہیرس کو کمیونسٹ ظاہر کر رہے ہیں۔ اگر اس بات کو سچ مان بھی لیا جائے تو کیا معلوم کہ گزشتہ 4 سال کو دیکھتے ہوئے ووٹر ان امیدواروں سے ہی امیدیں وابستہ کرلیں۔

مزید پڑھیے: کیا آپ جانتے ہیں کہ امریکی انتخابات میں کتنے مراحل ہوتے ہیں؟

درحقیقت اس وقت امریکا ایک پرانے مرض سے دوچار ہے۔ بائیڈن اور ہیرس شاید ہی اس کا علاج کرسکیں۔ ٹرمپ خود بیماری نہیں ہیں بلکہ اس بیماری کی علامت ہے۔ علامت کا علاج کرنا غیر اہم تو نہیں ہے لیکن یہ کسی بھی طرح بیماری کے علاج کا متبادل نہیں ہو سکتا۔

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بُری، پاگل پن اور آگے کے بجائے پیچھے لے جانے والی ٹرمپ انتظامیہ اور آنے والے 4 سالوں میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ لیکن امریکا اور اس کے باہر پایا جانے والا وہ نظریہ جو صدر ٹرمپ کو اقتدار میں لایا ہے اتنی آسانی سے ختم ہونے والا نہیں ہے۔

دوسری طرف ’QAnonist‘ اس بات پر خوش ہیں کہ انہوں نے بہت عمدگی سے ’سیو دی چلڈرن‘ کا نعرہ ایک این جی او سے چرا لیا ہے، لیکن وہ اس بات میں کوئی بُرائی نہیں دیکھتے کہ جب ان کی محبوب امریکی انتظامیہ لاطینی امریکا کے ہزاروں بچوں کو اغوا کرلے، بشمول وہ نومولود بچے جنہیں ان کے والدین سے الگ کردیا گیا ہو۔ اور پھر ان بچوں میں سے 545 بچوں کو ان کے والدین سے دوبارہ نہیں ملوایا جاسکا، شاید اتنا کہنا کافی ہے۔


یہ مضمون 28 اکتوبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں