آئی جی سندھ کی سربراہی میں مفرور ملزم کی گرفتاری کیلئے آپریشن

اپ ڈیٹ 30 اکتوبر 2020
آئی جی سندھ آپریشن کی نگرانی کررہے ہیں—فوٹو: ڈان
آئی جی سندھ آپریشن کی نگرانی کررہے ہیں—فوٹو: ڈان

آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر کی نگرانی میں دادو اور قمبر شہداد کوٹ میں بلدئی یوسی چیئرمین اور ان کے بیٹوں کے قتل میں ملوث مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے بڑا آپریشن شروع کرنے پر پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی صوبائی قیادت نے سخت ردعمل دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے دو روز قبل دادو اور قمبر شہداد کوٹ دونوں اضلاع کے 7 تھانوں سے پولیس کی بھاری نفری طلب کرکے مفرور ملزمان ذوالفقار اور مرتضیٰ کی گرفتاری کے لیے آپریشن شروع کردیا تھا۔

آئی جی سندھ کی جانب سے 24 گھنٹے بعد جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ مختلف علاقوں میں چھاپوں کے دوران مفرور ملزمان دوسری جگہ منتقل ہوگئے۔

میہڑ میں آئی جی سندھ مشتاق مہر کی زیر صدارت سینیئر پولیس عہدیداروں کا اجلاس ہوا جس میں حیدر آباد اورلاڑکانہ کے ڈی آئی جیز اور دادو، ٹھٹہ، جامشورو، ٹنڈومحمد خان، لاڑکانہ، قمبر شہداد کوٹ شہداد کورٹ کے ایس ایس پیز نے شرکت کی اور آپریشن کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

پولیس نے خیرپور ناتھن شاہ اور میہڑ اور ضلع دادو کے اطراف کی آبادیوں کے راستوں کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور شاہہ گوڈریو، فرید آباد اور غرتال سمیت مختلف مقامات پر چیک پوسٹیں بھی قائم کردی گئی ہیں۔

رکن صوبائی اسمبلی کی رہائش گاہ پر چھاپہ

سندھ اسمبلی کے رکن سردار چانڈیو کی رہائش گاہ پر چھاپے کی بھی متضاد اطلاعات ہیں۔

ڈان کو ام رباب نے بتایا کہ ملزمان انتہائی بااثر افراد ہیں اور علاقے کے لوگوں میں ان کے سامنے بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔

رکن صوبائی اور قومی اسمبلی اور دیگر پی پی پی رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے مفرور ملزمان کی تلاش کے لیے کارروائی کی لیکن آزاد ذرائع کا کہنا تھا کہ پولیس ان کی رہائش گاہ میں گئی تھی اور دروازے پر ان کے ملازمین سے مطالبہ کیا کہ اگر ملزم موجود ہے تو ان کے حوالے کردیا جائے۔

رپورٹ کے مطابق رکن صوبائی اسمبلی کے ملازمین نے پولیس کو بتایا کہ گھر میں کوئی مشتبہ شخص موجود نہیں ہے اور پولیس اہلکار چلے گئے۔

آئی جی پولیس نے میہڑ اور لاڑکانہ میں قائم کیمپوں کا دورہ کیا اور آپریشن کی نگرانی کے لیے دیگر علاقوں کا بھی چکر لگایا اور انہوں نے جائے وقوع کا جائزہ لینے کے لیے دو ڈی آئی جیز کے ہمراہ کرم اللہ چانڈیو کی رہائش گاہ کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان کو مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لانے کا یقین دلایا۔

رکن صوبائی اسمبلی سردار چانڈیو کی میڈیا سے گفتگو

رکن صوبائی اسمبلی سردار چانڈیو نے پولیس آپریشن پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ اور دیگر افراد کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں پہلے ہی ضمانت حاصل کرچکا ہوں اور ہر سماعت پر باقاعدگی سے عدالت میں پیش ہوتا ہوں لیکن اس کے باوجود پولیس نے تلاشی کے لیے میری رہائش پر کارروائی کی۔

انہوں نے کہا کہ تفتیش کے آغاز میں ہی ہمارے نام ایف آئی آر سے خارج کردیے گئے تھے اور پولیس کا چھاپہ سیاسی طور پر نشانہ بنانے کی کوشش ہے۔

سردار چانڈیو کا کہنا تھا کہ پولیس کارروائی کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی جائے گی۔

قانون سے کوئی بالاتر نہیں، پولیس

آئی جی سندھ نے اس معاملے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ جلد ہی دادو میں پریس کانفرنس کے ذریعے آپریشن میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون سے بالاتر کوئی نہیں اور جو بھی اس حملے میں ملوث ہوگا اس کو گرفتار کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ 17 جنوری 2018 کو میہڑ میں یوسی چیئرمین رئیس کرم اللہ چانڈیو اور ان کے دو بیٹوں مختیار اور قابل کو ان کی رہائش پر حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا جبکہ جوابی فائرنگ سے ایک حملہ آور بھی مارا گیا تھا۔

بعد ازاں چانڈیو قبیلے کے سربراہ رکن صوبائی اسمبلی سردار چانڈیو اور ان کے بھائی نواب برہان چانڈیو پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ حملہ ان کی پشت پناہی پر کیا گیا جبکہ متاثرہ خاندان اور ملزمان دونوں کا تعلق پی پی پی سے ہے۔

رکن صوبائی اسمبلی سردار چانڈیو اور برہان چانڈیو ضمانت پر ہیں دیگر دو ملزمان سکندر اور علی گوہر پولیس کی حراست جبکہ دو ملزمان ذوالفقار اور مرتضیٰ مفرور ہیں۔

مقتول مختیار چانڈیو کی بیٹی ام رباب مقدمے کی پیروی کررہی ہیں اور حال ہی میں سپریم کورٹ نے آئی جی سندھ کو 10 نومبر کو پیش ہو کر مفرور ملزمان کی عدم گرفتاری کی وضاحت دینے کا حکم دیا ہے۔

ام رباب نے الزام عائد کیا کہ حملہ آور آزادانہ گھوم رہے ہیں اور متاثرہ خاندان کے دیگر افراد کو بھی قتل کی دھمکیاں دے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں