ریاست سے لڑائی کے نتائج بہت سنگین ہوں گے، شیخ رشید

اپ ڈیٹ 31 اکتوبر 2020
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید پریس کانفرنس کررہے تھے — فائل فوٹو: پی آئی ڈی
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید پریس کانفرنس کررہے تھے — فائل فوٹو: پی آئی ڈی

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے اپوزیشن جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے مؤقف پر کہا ہے کہ اب آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ سیاست سے لڑائی کرنی ہے تو عمران خان میدان میں ہے لیکن اگر آپ نے ریاست سے لڑائی کرنی ہے تو اس کے نتائج بہت سنگین ہوں گے، سیاست سے لڑائی آپ کا حق ہے تاہم ریاست سے لڑائی آپ کا حق نہیں۔

لاہور میں پریس کانفرنس میں انہوں نے سیاسی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال سے حالات کافی ابتر ہوتے جارہے ہیں اور سیاست کو ریاست پر اہمیت دی جارہی ہے، یہ انتہائی غیرذمہ درانہ حرکت ہے اور میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایاز صادق، نواز شریف کی تھپکی کے بغیر یہ بیان دے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے 6 آرمی چیف لگائے اور ان کی 6 آرمی چیف سے لڑائی ہوئی اور ان کا ایجنڈا اس خوفناک حد تک آگے بڑھتا جارہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو کہنا پڑا کہ فوج میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اتنے شدید حالات کے باوجود بھی فوج جمہوریت کی ضمانت ہے، فوج کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت یہ سب کہا جارہا ہے جو غیرملکی ایجنڈا ہے اس پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: سال کے آخر تک 8 سے 15 افراد اپوزیشن کو چھوڑ جائیں گے، شیخ رشید

دوران گفتگو ان کا کہنا تھا کہ کوئی دسمبر تو کوئی جنوری کی بات کر رہا ہے، میں نے کہا تھا کہ یکم نومبر سے لے کر 31 دسمبر اور 20 فروری تک اہم ہے اور ’کٹی، کٹا‘ نکل آئے گا۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب میں بات کرتا ہوں تو سیاسی تجزیے پر کرتا ہوں اور میں نے کوئٹہ اور پشاور میں دھماکوں کے خطرے کی بات نیکٹا کی جانب سے جاری بیان پر بطور وزیر کی، ابھی بھی میں نے کہا کہ کورونا وائرس سے احتیاط کی جائے۔

وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ ہم نے اس ملک کو آگے لے کر چلنا ہے، اب آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ سیاست سے لڑائی کرنی ہے تو عمران خان میدان میں ہے لیکن اگر آپ نے ریاست سے لڑائی کرنی ہے تو اس کے نتائج بہت سنگین ہوں گے، سیاست سے لڑائی آپ کا حق ہے تاہم ریاست سے لڑائی آپ کا حق نہیں ہے۔

اپنی گفتگو کے دوران شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ یہ غیرملکی ایجنڈا ہے جس میں پاکستان پر سرمایہ کاری کی جارہی ہے، پاکستان پر جو غیرملکی دباؤ ہے اس کے ساتھ ساتھ ملک میں اندر سے انتشار اور خلفشار پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس انتشار اور خلفشار سے یہ نہ ہو کہ سیاسی قوتوں کو پچھتانا پڑے، ملک اس طرح زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا، ملک کی معیشت پہلے ہی دباؤ میں ہے، پاکستان کے دشمن ایاز صادق کے بیان پر بغلیں بجا رہے ہیں۔

شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ نواز شریف نے ایاز صادق کو اچانک کیوں متعارف کروایا اس کی وجہ شاہد خاقان عباسی کے وہ بیانات بھی ہوسکتے ہیں جو انہوں نے مذاکرات کے لیے دیے، عمران خان نے بھی کہا ہے کہ کرپشن کے علاوہ مشاورت اور بات چیت کے لیے دروازے بند نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایسی خبریں سامنے لاسکتا ہوں جس سے سیاسی زلزلہ آجائے، شیخ رشید کا مریم نواز کو انتباہ

انہوں نے کہا کہ اگر کسی حادثے سے جمہوریت کو دوچار کرنا ہے تو پھر آپ شوق سے مذاکرات کے دروازے بند کردیں، جو بیچ نواز شریف اور مریم نواز نے بو دیا ہے اس سے نہ صرف ان کے لیے مشکلات بلکہ ناممکن ہوگیا ہے، اس میں پیپلزپارٹی نے پھر بھی بہتر سیاست کھیلی ہے اور سوچ سمجھ کر بیانات دیے ہیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے 6 فیصد ووٹ ہیں لیکن ان کے پاس مدارس اور طلبہ کو لانے اور لے جانے کے معاملات اور وسائل ہیں، وہ حکومت کے لیے مشکلات تو پیدا کرسکتے ہیں لیکن حکومت میں کوئی کلیدی کردار ادا کرنے کے ان کے خواب ادھورے ہی رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 6 فیصد ووٹ سے ملک میں کوئی سیاسی تقدیر نہیں بدلی جاسکتی بلکہ ہنگامہ، انتشار اور خلفشار پیدا کیا جاسکتا ہے۔

وزیر ریلوے کے مطابق بعض عقل کے اندھوں کو اندازہ نہیں ہے کہ سیاست کس خطرناک مراحل میں داخل ہورہی ہے، میں ان سے کہوں گا کہ عقل کے ناخن لیں، سیاست جس دوہراہے میں داخل ہورہی ہے اس کے نتائج کچھ بھی نکل سکتے ہیں۔

اپنی گفتگو میں شیخ رشید نے دسمبر میں عمران خان کے جانے کی باتیں کرنے والوں پر واضح کیا کہ عمران خان کہیں نہیں جارہے، 31 دسمبر سے 20 فروری کے درمیان بہتری ہوجائے گی اور معاملات فیصلہ کن شکل اختیار کرلیں گے۔

اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نہ ملک مارشل لا کی جانب جارہا ہے اور نہ ہی عمران خان اسمبلیاں توڑ رہے ہیں، عمران خان اس سارے بحران سے سرخرو ہوکر نکلے گا۔

شیخ رشید احمد نے مزید کہا کہ سیاستدانوں کے درمیان مذاکرات، بات چیت ہوتی ہے، اگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) مل سکتی ہیں تو کسی اور سے یہ بات چیت کیوں نہیں ہوسکتی۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن، حکومت اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے، وزیراعظم

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس سارے معاملے میں پیپلزپارٹی بہتری کی بات کر رہی ہے اور وہ ایک علاقے میں انتخابات میں حصہ لے رہی ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف بھی لڑ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے سلامتی کے ادارے صرف سیاست دانوں کی باتوں پر ہی برہم نہیں ہوتے بلکہ انہیں بین الاقوامی صورتحال کی بھی فکر ہوتی ہے، پاکستان کے خلاف بھارت جو جال بچھا رہا ہے وہ اس سے بھی اچھے سے واقف ہیں اور ایک اچھا جرنیل حوصلے، دانشمندی اور دوراندیشی سے فیصلے کرتا ہے جبکہ پاکستان کا جوان اور جرنیل دونوں عظیم تر ہیں اور ملکی سلامتی اور جمہوریت کی ضمانت ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیاست کا بالآخر انجام بات چیت اور مذاکرات ہیں اور عمران خان نے کہا کہ وہ کرپشن کے کیسز کے علاوہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے جتنے لوگ متحرک ہیں ان کا مسئلہ نیب کیسز ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں