پاور ڈویژن کا گردشی قرض 22 کھرب 60 ارب روپے تک پہنچ گیا

اپ ڈیٹ 03 نومبر 2020
پاور ڈویژن کے گردشی قرضے میں دسمبر 2018 کے بعد سے 851 ارب روپے کا اضافہ ہوا— فائل فوٹو: اے ایف پی
پاور ڈویژن کے گردشی قرضے میں دسمبر 2018 کے بعد سے 851 ارب روپے کا اضافہ ہوا— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: پاور ڈویژن کے گردشی قرضے میں دسمبر 2018 کے بعد سے 851 ارب روپے کا اضافہ ہوا جس کے بعد وہ بڑھ کر 22 کھرب 60 ارب روپے ہو گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاور ڈویژن کے سیکریٹری علی رضا بھٹہ نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے ان وجوہات کی وضاحت کی جس کی وجہ سے حکومت گردشی قرضوں پر قابو نہیں پاسکتی، عام طور پر بجلی کے شعبے کی ادائیگی کے نام سے مشہور گردشی قرضے مبینہ طور پر 19-2020 میں ایک دن میں اوسطاً 1.5 ارب (ماہانہ 45ارب) کی شرح سے بڑھے۔

مزید پڑھیں: پاور ڈویژن میں 30 کھرب روپے کے غلط استعمال ہونے کی نشاندہی

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو پیش کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق آزاد بجلی پیدا کرنے والوں (آئی پی پیز) کو ادائیگی جو دسمبر 2018 میں 718 ارب روپے تھیں وہ بڑھ کر ایک ہزار 42 ارب روپے ہو گئیں، اسی طرح پاور ہولڈنگ کمپنیوں کی بقایا رقم، جو دو سال قبل 607 ارب روپے تھی، اب بڑھ کر ایک ہزار 3 ارب روپے ہوگئی، اس کے علاوہ ایندھن سپلائرز کو جنکوس (جنریشن کمپنیوں) کی جانب سے کی جانے والی ادائیگی کی رقم 89 ارب روپے سے بڑھ کر 105 ارب روپے ہو گئی ہے۔

دسمبر 2018 کے بعد سے مجموعی گردشی قرض ایک ہزار 415 ارب روپے سے بڑھ کر 2 ہزار 266 ارب روپے ہوگیا ہے۔

علی رضا بھٹہ نے کہا کہ بڑھتے ہوئے سرکلر قرضوں کی وجوہات 'تکنیکی اور پیچیدہ' ہیں، ان کے بقول بجلی کی غیرمؤثر تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) اور تکنیکی نقصانات کے علاوہ صنعتی شعبہ، آزاد جموں و کشمیر، سابقہ فاٹا کے علاقوں اور بلوچستان کے زرعی شعبے کو دی جانے والی سبسڈی بھی وجوہات تھیں۔

انہوں نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا کہ یہ تجویز دی گئی ہے کہ زرعی سبسڈی وفاقی اور بلوچستان حکومتوں کے مابین 40-60 کے تناسب سے تقسیم کی جائے گی تاکہ سبسڈی والے نرخوں کو پورا کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ سبسڈی کا بجٹ بنایا گیا تھا جس کے لیے حکومت نے اپنا حصہ ادا کیا جبکہ 'دوسروں کا بجٹ نہیں بنایا گیا' اور گردشی قرض میں اضافہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: غیرحتمی آڈٹ رپورٹس شائع کرنے پر پاور ڈویژن کا اعتراض

مزید یہ کہ حکومت نے ڈالر کے نرخوں میں اتار چڑھاؤ کو صارفین تک منتقل نہیں کیا اور اس کے نتیجے میں قرض میں بھی اضافہ ہوا، انہوں نے مزید کہا کہ مرکز نے کے الیکٹرک کو 650 میگاواٹ بجلی بھی دی اور مذکورہ بجلی کی ادائیگی میں تاخیر سے بھی گردشی قرض میں اضافہ ہوا۔

علی رضا بھٹہ نے کہا کہ چونکہ انہوں نے صرف کچھ دن پہلے ہی پاور ڈویژن کے سیکریٹری کا عہدہ سنبھالا تھا، لہٰذا وہ تفصیلی حقائق سے واقف نہیں تھے تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت اس مسئلے کو اعلیٰ سطح پر اٹھا رہی ہے اور گردشی قرض کو محدود کرنے کی پالیسی کو حتمی شکل دی جا چکی ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نے بجلی کے شعبے کے گردشی قرضوں سے نمٹنے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب گزشتہ حکومت نے اپنی میعاد پوری کی تھی تو گردشی قرض صرف 450 ارب روپے تھا۔

رکن قومی اسمبلی ریاض فتیانہ نے پاور سیکٹر کے کھاتوں میں شفافیت کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں تقریباً 50 فیصد آسامیاں خالی ہیں، انہوں نے کہا کہ آپ ان تنخواہوں کو بچا رہے ہیں لیکن آپ نے تقاضوں کے مطابق انفرا اسٹرکچر میں توسیع نہیں کی، انہوں نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہے کہ بجلی کا شعبہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

مزید پڑھیں: کے-الیکٹرک کیخلاف اقدامات پر حکم امتناع خارج، نیپرا قانون کے سیکشن 26 پر عملدرآمد کا حکم

اجلاس میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی کارروائی کے حوالے سے قانونی چارہ جوئی سے متعلق معاملہ بھی اٹھایا گیا۔

ایک اور قانون ساز ابراہیم خان نے نشاندہی کی کہ ایک نجی کمپنی میسرز عثمان ٹریڈرز نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں منعقدہ بحث کی بنیاد پر ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا جو پارلیمنٹ کا اعلیٰ احتساب کا فورم ہے۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین سے کہا کہ وہ اس معاملے کو عدالتی حکام کے سامنے اٹھائیں۔

رکن قومی اسمبلی سید نوید قمر نے نشاندہی کی کہ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت عدالتیں پارلیمنٹ کی کارروائی کی تفتیش نہیں کرسکتیں۔

آرٹیکل 69 کے ذیلی آرٹیکل ایک میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ضابطے کی بے ضابطگی کی بنا پر پارلیمنٹ میں کسی بھی کارروائی کی صداقت پر سوال نہیں اٹھائے جائیں گے۔

نوید قمر نے پینل کو قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے متعلق معاملہ متعلقہ عدالتی حکام کے پاس اٹھانے کی درخواست کرنے کی تجویز پیش کی۔

تبصرے (0) بند ہیں