پی ڈی ایم تازہ 'میثاق جمہوریت' پر کام کرے گی

اپ ڈیٹ 09 نومبر 2020
سابق وزیراعظم کے مطابق پی ڈی ایم چارٹر مکمل طور پر ایک نیا دستاویز ہوگا جس میں اتحادی پارٹیوں کے مشترکہ مطالبات کے مقاصد بیان ہوں گے — فائل فوٹو:اے ایف پی
سابق وزیراعظم کے مطابق پی ڈی ایم چارٹر مکمل طور پر ایک نیا دستاویز ہوگا جس میں اتحادی پارٹیوں کے مشترکہ مطالبات کے مقاصد بیان ہوں گے — فائل فوٹو:اے ایف پی

اسلام آباد: حزب اختلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل اتحادی جماعتوں نے اپنے مطالبات کو باضابطہ طور پر پیش کرنے کے لیے ایک نیا چارٹر تیار کرنے اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے آئندہ کے لائحہ عمل کو بنیادی مقاصد کے ساتھ ’ملک میں ایک حقیقی آئینی اور جمہوری نظام کے قیام‘ کے لیے تیار کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 11 جماعتی اتحاد کے سربراہان کے اجلاس کی صدارت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اتحاد کی اسٹیئرنگ کمیٹی 13 نومبر کو اسلام آباد میں ملاقات کرے گی جس میں تمام جماعتوں کے نمائندے مجوزہ معاہدے کے لیے اپنی سفارشات پیش کریں گے جس کو اگلے دن فریقین کے سربراہوں کے ایک اور اجلاس میں حتمی شکل دی جائے گی۔

پی ڈی ایم کے اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بالترتیب لندن اور کراچی سے ویڈیو کالز کے ذریعے شرکت کی۔

آصف علی زرداری نے اجلاس میں اس لیے شریک کی کیونکہ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری فی الحال گلگت بلتستان میں 15 نومبر کو ہونے والے انتخابات کی مہم چلانے میں مصروف ہیں۔

مزید پڑھیں: 'چور آپ کا باپ ہے'، حکومتی بینچز کی تنقید پر شاہد خاقان کا سخت ردعمل

پی ڈی ایم کے سیکریٹری جنرل اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے ڈان کو بتایا کہ نیا چارٹر 2006 کی میثاق جمہوریت (سی او ڈی) کی طرح نہیں ہوگا جس میں ان کی پارٹی اور پیپلز پارٹی کے درمیان دستخط ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنی ابتدائی ملاقاتوں میں انہوں نے میثاق جمہوریت میں توسیع کے بارے میں بات کی تھی تاہم اتوار کے اجلاس کے دوران ایسی کوئی بات زیر بحث نہیں آئی۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم چارٹر مکمل طور پر ایک نیا دستاویز ہوگا جس میں یہ بتایا جائے گا کہ پی ڈی ایم کے مطالبات کیا ہوں گے اور وہ کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نواز شریف نے ایک بنیادی پیغام دیا تھا کہ پی ڈی ایم کا مقصد ’نظام کو تبدیل کرنا ہے نہ کہ موجودہ حکومت کا خاتمہ کرنا‘۔

انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے شرکا کو یقین دلایا ہے کہ ان کی پارٹی پی ڈی ایم کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کے لیے پرعزم ہے اور ’یہ صرف پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہی کام کرے گی‘۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے اعتراف کیا کہ اجلاس میں اس بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا کہ مستقبل میں فریقین اپنے بیانیے کو کس طرح پیش کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ بیانیے پر فریقین کے درمیان مکمل اتفاق رائے ہے اور فریقین پر یہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ اسے پیش کرنے کا اپنا اپنا طریقہ منتخب کریں۔

انہوں نے کہا کہ ’آج ایک اتفاق رائے ہوا ہے کہ مسئلہ سلیکٹڈ نہیں بلکہ سلیکٹرز کا ہے‘۔

مولانا فضل الرحمن جو جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے اپنے ہی دھڑے کے سربراہ بھی ہیں، نے پریس بریفنگ میں کہا کہ وزیر داخلہ (ر) بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے حالیہ متنازع بیان پر پی ڈی ایم رہنماؤں نے احتجاج کیا ہے جس میں انہوں نے مبینہ طور پر طالبان کے حملوں سے متنبہ کیا تھا۔

اپنے آبائی شہر ننکانہ صاحب میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ دہشت گردی سے متعلق عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی پالیسیوں پر تحریک طالبان پاکستان نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی قیادت پر حملہ کیا اور اس کے بہت سے رہنماؤں کو ہلاک کیا ہے جن میں بشیر بلور اور میاں افتخار کا بیٹا بھی شامل ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ وزیر داخلہ نے اپنے بیان کے ذریعے در حقیقت سیاسی رہنماؤں کے قتل میں ریاست کے کردار کو قبول کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ چلے گئے اب ان کے دوست عمران خان کی باری ہے، سراج الحق

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ وزیر داخلہ نے ’دھمکی‘ دی ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) نے اسی طرح کے (اینٹی اسٹیبلشمنٹ) بیانیہ جاری رکھا تو ’اس کے رہنماؤں کو بھی قتل کیا جاسکتا ہے‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ بات بخوبی سمجھا دی گئی ہے کہ ملک میں جب ’اسٹیبلشمنٹ‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے کِسے مخاطب کیا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، میڈیا نے اسے ایک مسئلہ بنا دیا ہے، ’ہم ملک کے اداروں کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر سیاست دانوں کے نام لیے جاسکتے ہیں تو پھر ملک کے اداروں سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کا نام لیا جاسکتا ہے‘۔

سربراہ جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ ’یہ کوئی جرم نہیں ہے، جب ایک رپورٹر نے یہی سوال دہرایا تو مولانا فضل الرحمٰن ناراض ہوگئے اور کہا کہ اس اجلاس میں اس طرح کی کوئی بحث نہیں ہوئی ہے اور اگلے عوامی جلسوں میں وہ خود لوگوں کے نام لیں گے۔

پی ڈی ایم جو پہلے ہی گوجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ میں جلسے کرچکی ہے، اب 22 نومبر کو پشاور، 30 نومبر کو ملتان اور 13 دسمبر کو لاہور میں عوامی جلسوں کا انعقاد کر رہی ہے جبکہ آئندہ سال جنوری میں وزیر اعظم عمران خان سے استعفیٰ طلب کرنے کے لیے لانگ مارچ کا بھی انعقاد کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں