لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

ماضی قریب میں امریکیوں نے ایسا کوئی صدارتی انتخاب نہیں دیکھا ہوگا جیسا انہوں نے حالیہ انتخاب یعنی 2020ء میں دیکھا ہے۔

اسی طرح پوری دنیا نے بھی کبھی اس فکرمندی کے ساتھ امریکا میں جاری سیاسی کشیدگی، تلخ بیانات کے تبادلے اور قانونی جنگوں پر توجہ دی تھی جو اس بار دیکھنے کو ملی اور جس نے ان انتخابات کو ہنگامہ آرائی کا شکار کیے رکھا۔

میدانِ جنگ سمجھی جانے والی ریاستوں میں دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان موجود ووٹوں کے معمولی فرق کی وجہ سے انتخاب کے چند دن بعد بھی لوگ تناؤ کا شکار رہے۔

امریکی عوام نے ایک ایسے صدارتی انتخاب میں جو بائیڈن کو صدر منتخب کیا ہے جسے اس کی اہمیت کی وجہ سے امریکیوں کی ’زندگی کا اہم ترین انتخاب‘ قرار دیا جارہا تھا اور جس کے نتیجے کو ’آئندہ دہائی پر اثر انداز ہونے والا‘ نتیجہ کہا جارہا تھا۔

مزید پڑھیے: جلد وائٹ ہاؤس کے مہمان بننے والے جوبائیڈن خاندان سے ملیے

جو بائیڈن کا انتخاب امریکا اور اس کے باہر بھی لوگوں کے لیے راحت کا باعث ہے۔ بین الاقوامی برادری کے لیے اس وقت بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا وائٹ ہاؤس کا یہ نیا مکین امریکی خارجہ پالیسی کو دوبارہ ٹرمپ سے پہلے کے دور میں لے جائے گا؟

آغاز میں تو جو بائیڈن کو مقامی مسائل سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔ امریکا میں اس وقت بھی کورونا نے سنگین صورت اختیار کی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ بڑھتی ہوئی تقسیم اور نسلی تعصب کو بھی دُور کرنے کی ضرورت ہے۔

جو بائیڈن کا پہلا کام تو انتشار کے شکار ملک کو متحد کرنا ہوگا۔ نو منتخب امریکی صدر نے انتخابات کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں امریکا کے صدر کے طور پر اپنے فرائض انجام دوں گا۔ یہاں کوئی نیلی یا سرخ ریاستیں نہیں ہوں گی۔ صرف ریاست ہائے متحدہ امریکا ہوگی‘۔

امریکی کانگریس کے انتخابات کا نتیجہ بھی ایک چیلنج بن سکتا ہے کیونکہ سینیٹ میں ابھی سے ری پبلکن جماعت کی اکثریت نظر آرہی ہے۔ بائیڈن کو ایک حکومت مخالف سینیٹ کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

یہ صورتحال منقسم قوم کو متحد کرنے جیسے بائیڈن کے عزم کی راہ میں بھی رکاوٹ بنے گی۔ نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون میں کہا گیا تھا کہ یہ انتخابات امریکا میں موجود معاشرتی بحران، سیاسی ثقافت کے زوال اور الگ تھلگ ہوجانے کے احساس جیسے ’سنجیدہ مسائل‘ کو حل نہیں کرسکیں گے۔

ٹرمپ کو 2016ء کے مقابلے زیادہ ووٹ ملنا اس بات کی علامت ہے کہ ٹرمپ ازم کی حمایت اب بھی برقرار ہے۔ اگر ٹرمپ مستقبل میں بھی متحرک سیاسی کردار ادا کرتے رہے تو یہ بائیڈن کے لیے ایک اور مشکل ہوگی۔ اس وجہ سے داخلی معاملات بائیڈن کی مستقل توجہ کے متقاضی ہوں گے۔

لیکن دنیا کے ساتھ امریکا کے تعلقات کی سمت کو درست کرنا بھی ضروری ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں خارجہ پالیسی ایک ایسی چیز ہے جہاں بائیڈن نسبتاً آزادی سے کام کرسکتے ہیں۔ تو آخر بائیڈن انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ بائیڈن کی امورِ خارجہ کی ٹیم میں کون لوگ شامل ہوں گے کیونکہ افراد کے انتخاب سے خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین ہوسکے گا۔

مزید پڑھیے: 'جوبائیڈن مسلمانوں پر عائد سفری پابندی ختم کرنے کا وعدہ یاد رکھیں'

جو بائیڈن کو خارجہ امور کا بہت وسیع تجربہ ہے۔ وہ ایک طویل عرصے تک سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بارک اوباما کے ساتھ نائب صدر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وجہ سے امید کی جارہی ہے کہ عالمی سطح پر امریکا کو نقصان پہنچانے والی ٹرمپ کی پالیسیوں کے برخلاف بائیڈن خارجہ پالیسی کے لیے ایک روایتی راستہ اختیار کریں گے۔

ٹرمپ کی ’سب سے پہلے امریکا‘ کی یکطرفہ پالیسی کے برخلاف بائیڈن ایک لبرل سیاستدان ہیں جو امریکا کی کثیر الجہتی شناخت کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کی ‘سب سے پہلے امریکا‘ کی پالیسی ’تنہا امریکا‘ کے نتیجے میں سامنے آئی ہے اور وہ امریکا کی قائدانہ حیثیت کو بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔

مجموعی طور پر ہم بائیڈن کی صدارت میں ایک متوازن خارجہ پالیسی کی واپسی، اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کی توثیق، ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی فعالیت، پیرس میں ہونے والے موسمی معاہدے میں واپسی اور نیٹو جیسے اتحادیوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی تجدید جیسے اقدامات دیکھ سکتے ہیں۔

بائیڈن کی ایک اہم ترجیح امریکا کی تباہ شدہ بین الاقوامی ساکھ کو بہتر بنانا ہوگی جس کا ثبوت کئی سروے میں ملتا ہے۔ پیو ریسرچ کے حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ امریکا کی عالمی ساکھ تاریخ میں کم ترین سطح پر ہے۔ یہ سروے بتاتا ہے کہ واشنگٹن کے اتحادی ممالک میں سے متعدد امریکا اور خاص طور پر ٹرمپ کے حوالے سے منفی سوچ رکھتے ہیں۔

واضح طور پر ٹرمپ کی تباہ کن پالیسیوں کے 4 سالوں نے دنیا اور عالمی نظام پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کی وجہ سے امریکا کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور اس کا اثر و رسوخ کم ہوگیا ہے جبکہ اس کی سافٹ پاور میں بھی کمی آئی ہے۔ جو بائیڈن اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔

افغانستان اور وہاں سے امریکی افواج کے انخلا کے بارے میں جو بائیڈن کے خیالات ٹرمپ سے بہت مختلف نہیں ہوں گے. وہ افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کے ناقد رہے ہیں اور 2009ء میں اوباما کے دورِ صدارت میں انہوں نے بطور نائب صدر افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد بڑھانے کی مخالفت کی تھی۔

رواں سال کے آغاز میں ایک انٹرویو میں بائیڈن سے پوچھا گیا کہ افغانستان میں اگر طالبان اقتدار میں آگئے تو وہ کیا کریں گے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ میری ذمے داری نہیں ہے۔ میری ذمے داری یہ ہے امریکا کے قومی مفادات کی حفاظت کروں اور ہر مسئلے کو طاقت سے حل کرتے کی خاطر امریکی مرد و خواتین کی جان کو خطرے میں نہ ڈالوں۔

مزید پڑھیے: وائٹ ہاؤس یا ڈی چوک؟ نمائش چورنگی یا مُکا چوک؟ یہ میں کیا دیکھ رہا تھا؟

ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی فعالیت ٹرمپ کی پالیسیوں سے ایک واضح اختلاف ہوگا۔ بائیڈن نے بار بار یہ بات دہرائی ہے کہ اگر ایران جوہری معاہدے کی پاسداری اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اسے مضبوط کرنے پر راضی ہو تو وہ اس معاہدے کو دوبارہ فعال کریں گے۔ بائیڈن کا خیال ہے کہ اس سے امریکا کی بالادستی کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔

تاہم سعودی عرب پر بائیڈن کی تنقید کو دیکھتے ہوئے یہ سوال اب بھی موجود ہے کہ اس خطے کے حوالے سے بائیڈن کی پالیسی کیا ہوگی۔ جہاں تک اسرائیل کا سوال ہے تو اسرائیل کے حوالے سے امریکا کی ایک ہی پالیسی چلتی آرہی ہے اور آئندہ بھی اس پالیسی کے تحت امریکا اسرائیل کی حمایت جاری رکھے گا۔

امریکی خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا چیلنج امریکا اور چین کے تعلقات ہوں گے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے اثرات صرف ان 2 ممالک تک محدود نہیں رہیں گے۔ ٹرمپ نے چین سے تعلقات کو اپنی محاذ آرائی کی پالیسی کی وجہ سے سخت دشمنی میں تبدیل کردیا تھا۔ امریکا میں چین مخالف خیالات کی وجہ سے ممکن ہے کہ بائیڈن بھی اس حوالے سخت پالیسی ہی اختیار کریں۔

لیکن ٹرمپ کے برخلاف بائیڈن کم جارحانہ پالیسی اپنائیں گے اور چین کو محدود کرنے کے ساتھ ساتھ وہ موسمی تغیر جیسے عالمی مسائل پر اشتراک عمل کی بھی کوشش کریں گے۔

اگر چین کی بات کی جائے تو وہ بھی امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے بائیڈن کی توجہ حاصل کرنا چاہے گا۔ چین کے نائب وزیرِ خارجہ نے حال ہی میں امید ظاہر کی تھی کہ نئی امریکی قیادت چین کے ساتھ مل کر کام کرے گی اور دونوں ممالک اختلافات کو دُور کرنے کے لیے تعاون پر توجہ مرکوز کریں گے۔

ٹرمپ کی خارجہ پالیسی اور نئی امریکی خارجہ پالیسی میں سب سے بڑا فرق توازن اور استحکام کے شامل ہونے کا ہوگا۔ تاہم داخلی محاذ نئے صدر کی توجہ کا مرکز ہوگا کیونکہ داخلی اختلافات کی شدت نے ملک کو بے قابو کردیا ہے۔ فنانشنل ٹائمز کے ایک اداریے میں کہا گیا کہ جنگ کے بعد سے کسی امریکی صدر نے اس سے زیادہ محصور قوم کی قیادت نہیں سنبھالی ہے۔


یہ مضمون 9 نومبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

athar Nov 09, 2020 07:13pm
ڈاکٹر ملیحہ لودھی کے مضمون میں امریکہ کے انڈیا کے ساتھ تعلقات کے موضوع کی تشنگی رہی