بھارتی چینلز و اینکرز کو بولی وڈ کے خلاف توہین آمیز مواد نشر نہ کرنے کی ہدایت

اپ ڈیٹ 09 نومبر 2020
عدالت نے ارنب گوسوامی اور ناویکا کمار سے سشانت سنگھ کیس میں غیر ذمہ دارانہ بیانات پر جواب طلب کرلیا— فوٹو: نیشنل ہیرالڈ انڈیا
عدالت نے ارنب گوسوامی اور ناویکا کمار سے سشانت سنگھ کیس میں غیر ذمہ دارانہ بیانات پر جواب طلب کرلیا— فوٹو: نیشنل ہیرالڈ انڈیا

دہلی ہائی کورٹ نے بھارتی نجی ٹی وی چینلز ری پبلک ٹی وی، اس کے ایڈیٹر ان چیف ارنب گوسوامی، ٹائمز ناؤ اور اس کی گروپ ایڈیٹر ناویکا کمار اور دیگر سے سشانت سنگھ راجپوت کیس میں ایجنسیوں کی تحقیقات سے متعلق غیر ذمہ دارانہ بیانات پر جواب طلب کرلیا۔

گزشتہ ماہ اکتوبر میں بولی وڈ فلم سازوں نے سشانت سنگھ راجپوت کی موت کی تحقیقات سے متعلق کیس میں ’بولی وڈ شخصیات کے میڈیا ٹرائلز’، ان کے نام لینے اور پورے ’بولی وڈ کو مجرم قرار دینے’ پر دہلی ہائی کورٹ میں 2 بھارتی نجی ٹی وی چینلز کے خلاف مقدمہ کیا تھا۔

بولی وڈ انڈسٹری کی 4 ایسوسی ایشنز اور 34 نامور بولی وڈ پروڈیوسرز نے 2 ٹی وی چینلز، ری پبلک ٹی وی اور ٹائمز ناؤ کے خلاف ہدایات دینے کی درخواست کی تھی۔

مزید پڑھیں: بولی وڈ شخصیات کا انڈسٹری کی ’توہین’ کرنے پر میڈیا ہاؤسز و اینکرز پر مقدمہ

اس کے ساتھ ہی ان چینلز کے ایگزیکٹو ایڈیٹرز اور دیگر صحافیوں کو بولی وڈ اور انڈسٹری سے وابستہ افراد کے خلاف غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے یا شائع کرنے سے روکنے کی ہدایت دینے کی درخواست کی تھی۔

—فائل فوٹو: این ڈی ٹی وی
—فائل فوٹو: این ڈی ٹی وی

خیال رہے کہ رواں برس جون میں خودکشی کرنے والے سشانت سنگھ راجپوت کے لیے منشیات کا بندوبست کرنے کے الزام میں ان کی سابق گرل فرینڈ اور اداکارہ ریا چکر بورتی کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ریا چکربورتی کی گرفتاری کے بعد خبریں سامنے آئی تھیں کہ اداکارہ نے نارکوٹکس بیورو کے سامنے کم از کم 28 بولی وڈ شخصیات کے منشیات استعمال کرنے کے حوالے سے بتایا تھا۔

ریا چکربورتی نے جن 28 شخصیات کے حوالے سے نارکوٹکس بیورو کو بتایا تھا ان میں سیف علی خان کی بیٹی سارہ علی خان، اداکارہ راکول پریت سنگھ اور ڈیزائنر سیمون کھمباٹا کے نام بھی شامل تھے۔

بعدازاں این سی بی نے منشیات سے متعلق کیس میں دپیکا پڈوکون، شردھا کپور، سارہ علی خان اور راکول پریت سنگھ کو طلب کیا تھا اور کرن جوہر کو بھی طلب کیے جانے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق جسٹس راجیو شکدر نے چینلز اور ان کے اینکرز کو یہ ہدایت بھی کی کہ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر درخواست گزاروں بشمول اداکار شاہ رخ خان، عامر خان، سلمان خان، اکشے کمار، اجے دیوگن، انیل کپور اور ہدایت کار فرحان اختر، روہت شیٹھی، ونود چوپڑا اور آشوتوش گواریکر کے پروڈکشن ہاؤسز کے خلاف کوئی توہین آمیز مواد نہ دکھانے اور اپلوڈ نہ کرنے کو یقینی بنایا جائے۔

جسٹس راجیو شکدر نے کہا کہ چینلز اور اینکرز یقینی بنائیں کہ ان کے سوشل پلیٹ فارمز اور چینلز پر کوئی توہین آمیز مواد اپلوڈ یا نشر نہ ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ دونوں چینلز کے وکیل نے مجھے یہ یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ وہ کیبل ٹیلیویژن نیٹ ورک (ریگولیشن) ایکٹ، 1995 کے تحت تشکیل کردہ پروگرام کے قواعد و ضبط پر عمل کریں گے۔

عدالت نے کہا کہ غیرجانبداری کے ساتھ آزاد اور منصفانہ رپورٹنگ ہونی چاہیے۔

جسٹس راجیو شکدر نے کہا کہ کیبل سے قبل سرکاری نشریاتی چینل دور درشن سے نشر ہونے والا مواد قدرے بہتر تھا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیوز چینلز پروگرام کے قواعد و ضوابط پر عمل نہیں کررہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ پہلے سے ہی مسائل پر فیصلے سنارہے ہیں اور اس پر کچھ کرنا چاہیے، یہ ہر ایک کے لیے مایوس کن ہے، عام طریقہ یہ ہے کہ چارج شیٹ دائر ہونے تک ہم ملزم کا نام تک نہیں لیتے لیکن اب تو شخص کا نام اور ہر تفصیل چارج شیٹ سے قبل ہی جاری کردی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سشانت سنگھ خودکشی تحقیقات: مہیش بھٹ، کرن جوہر کے منیجر طلب

جج نے سوال کیا کہ آپ کو مجھے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہم اس سے کیسے نمٹیں؟ ہم ان مسائل کو کیسے حل کرسکتے ہیں؟

انہوں نے یہ ریمارکس دیے کہ وہ نشریاتی اداروں کے بیک گراؤنڈز اور ان کے اشتعال انگیز مواد سے حیران ہیں۔

—فوٹو: دی ہندو
—فوٹو: دی ہندو

جج راجیو شکدر نے بھارتی چینلز سے کہا کہ آپ معاشرے کے چوتھے جزو کی نمائندگی کرتے ہیں، لوگ آپ سے خوفزدہ ہیں، کوئی بھی اپنی نجی زندگی کو عوامی سطح میں لانا نہیں چاہتا، اس سے پرائیویسی کم ہوجاتی ہے۔

انہوں نے مذکورہ بات شہزادی ڈیانا کا حوالے دیتے ہوئے کی جو 1997 میں پاپارازی سے بچ کر نکلنے کی کوشش میں کار حادثے میں ہلاک ہوگئی تھیں۔

جج راجیو شکدر نے ٹی وی چینلز پر استعمال ہونے والی زبان پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

بولی وڈ فلم سازوں کی درخواست پر اگلی سماعت 14 دسمبر کو ہوگی جس میں عدالت نے دونوں نشریاتی اداروں سے جواب بھی طلب کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں