پنجاب: عادی منشیات فروش 23 برسوں میں 20ویں مرتبہ گرفتار

اپ ڈیٹ 10 نومبر 2020
اکثر مجرموں کو جیسے ہی جیل سے باہر آنے کا موقع ملتا ہے وہ دوبارہ اپنی مجرمانہ سرگرمیاں شروع کردیتے ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
اکثر مجرموں کو جیسے ہی جیل سے باہر آنے کا موقع ملتا ہے وہ دوبارہ اپنی مجرمانہ سرگرمیاں شروع کردیتے ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

چنیوٹ: پاکستان کا نظامِ انصاف مجرموں کی اصلاح کرنے میں ناکام ہوچکا ہے اس بات کا اندازہ ایک منشیات فروش عادی مجرم کے 23 برسوں میں 20 ویں مرتبہ گرفتار ہونے سے لگایا جاسکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے محلہ لاہوری گیٹ سے تعلق رکھنے والے 40 سالہ محمد علی کو گرفتار کیا اور اس کے قبضے سے شراب کی 120 بوتلیں برآمد کرلیں۔

پولیس کا کہنا تھا کہ محمد علی نے 1990 کی دہائی میں منشیات فروشی کی شروعات کی تھی اور اسے پہلی مرتبہ صرف 17 سال کی عمر میں 29 اپریل 1997 کو سٹی پولیس نے پکڑا تھا تاہم وہ ضمانت پر رہا ہوگیا تھا۔

اس کے بعد محمد علی کو وقتاً فوقتاً 2001، 2003، 2004، 2005، 2006، 2007، 2009 2013، 2015، 2016، 2018 اور 2020 میں گرفتار کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی 114 جیلوں میں گنجائش سے 19 ہزار قیدی زیادہ ہیں، محتسب

گرفتار ہونے پر اسے یا تو معمولی جرمانے کی سزا ہوئی یا زیادہ سے زیادہ 3 سال قید کی سزا ہوئی اور ایک بار جب وہ رہا ہوجاتا (ضمانت پر یا سزا مکمل ہونے پر) تو دوبارہ اپنی مجرمانہ سرگرمیاں شروع کردیتا۔

آخری مرتبہ اسے ضلع فیصل آباد کی پولیس نے 25 مئی کو گرفتار کیا تھا لیکن وہ ایک مرتبہ پھر ضمانت پر رہا ہوگیا تھا۔

ڈسٹرکٹ بار کے سیکریٹری عرفان نیکوکارا کا کہنا تھا کہ ملک میں ایسا کوئی نظام موجود نہیں ہے جس کے ذریعے ایسے لوگوں کو قانون کی پاسداری کرنے والا شہری بنایا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے لوگوں کی اصلاح کے لیے جیل انتظامیہ کی جانب سے مختلف سیشن کا انعقاد کیا جاتا ہے، اور سزا مکمل ہونے کے بعد ان کے افعال بہتر بنانے میں معاشرہ اور حکومت ان کی مدد کرتی ہے۔

مزید پڑھیں: کیمپ جیل میں 3500 قیدیوں کیلئے صرف ایک ڈاکٹر ہے، جیل حکام

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں ایسے لوگوں کو الگ تھلگ کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ پھر اُسی راستے پر چل پڑتے ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت نہ صرف جیل کا نظام درست کرے بلکہ قیدیوں کو ہنر کی تربیت اور اسلامی تعلیمات فراہم کرنے کے ساتھ آسان قرضے بھی فراہم کرے۔

ضلعی پولیس افسر بلال ظفر شیخ کا کہنا تھا کہ اکثر مجرموں کو جیسے ہی جیل سے باہر آنے کا موقع ملتا ہے وہ دوبارہ اپنی مجرمانہ سرگرمیاں شروع کردیتے ہیں، جیل انتظامیہ اور معاشرے کو انہیں ایک کار آمد شہری بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے 514 قیدیوں کا جرمانہ ادا کر کے انہیں رہا کردیا

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم' پلاننگ کررہے ہیں کہ سٹیزن پولیس لائسنس کمیٹی اور معاشرے کے دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ایسے شہریوں کو جیل سے واپس آنے کے بعد نئی زندگی شروع کرنے میں مدد فراہم کریں۔

اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تاہم معاشرے کو مجرموں کے ساتھ ممنوعہ رویہ کو تبدیل کرنا چاہیے اور انہیں مجرم کے بجائے صرف 'جرم' سے نفرت کرنی چاہیے۔


یہ خبر 10 نومبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں