خواتین کے جائیداد کے حقوق سے متعلق کیس میں ڈپٹی کمشنرز سے جواب طلب

اپ ڈیٹ 12 نومبر 2020
شکایت خیبر پختونخوا انفارسمنٹ آف اونرشپ ایکٹ 2019 کی دفعہ 4 کے تحت جمع کرائی گئی — فائل فوٹو: اے ایف پی
شکایت خیبر پختونخوا انفارسمنٹ آف اونرشپ ایکٹ 2019 کی دفعہ 4 کے تحت جمع کرائی گئی — فائل فوٹو: اے ایف پی

پشاور: خیبر پختونخوا کی انسداد ہراسانی محتسب رخشندہ ناز نے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو نوٹسز جاری کیے ہیں کہ وہ خواتین کی خاندانی وراثت میں حصہ داری سے انکار کرنے والوں کے خلاف کی جانے والی شکایت پر اپنا جواب جمع کرائیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تمام ڈپٹی کمشنرز کو 17 نومبر تک اپنے جوابات جمع کرانے کے لیے کہا گیا ہے۔

یہ شکایت ایڈووکیٹ سیف اللہ محب کاکاخیل نے خیبر پختونخوا انفارسمنٹ آف اونرشپ ایکٹ 2019 کی دفعہ 4 کے تحت جمع کرائی۔

یہ بھی پڑھیں: کے پی اسمبلی میں خواتین کے تحفظ حق جائیداد کا بل منظور

انہوں نے یہ شکایت معاشرے میں بڑے پیمانے پر خواتین کو منقولہ اور غیر منقولہ وراثتی جائیدادوں کی ملکیت کے حق سے محروم رکھنے کے خلاف جمع کرائی۔

سیف اللہ محب کاکاخیل نے شکایت میں درخواست کی کہ محتسب تمام ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت جاری کریں کہ وہ ضم شدہ قبائلی اضلاع سمیت صوبے کے تمام اضلاع میں گھروں میں پمفلٹ کے ذریعے خواتین میں خاندانی وراثت کے حق سے متعلق آگاہی فراہم کریں۔

انہوں نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو تمام موبائل فون استعمال کرنے والوں کو اس مسئلے کی آگاہی اور محتسب کے دفتر سے متعلق تفصیلات کے ایس ایم ایس بھیجنے کی بھی درخواست کی۔

شکایت میں کہا گیا کہ پی ٹی اے کو خواتین کی جائیداد سے متعلق شکایات درج کرنے کے لیے ایک موبائل ایپلی کیشن بھی شروع کرنی چاہیے۔

مزید پڑھیں: خواتین کو وراثتی حقوق کی فراہمی کیلئے آگاہی مہم شروع

انہوں نے محتسب سے درخواست میں کہا کہ وہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو تمام نیوز چینلز کو اشتہارات کے ذریعے اس مسئلے سے متعلق آگاہی دینے کی ہدایت کرے۔

سیف اللہ محب کاکاخیل نے، جو مفاد عامہ کی قانونی چارہ جوئی کے لیے مشہور ہیں، تجویز دی کہ تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز ریونیو اتھارٹی کو حکم جاری کریں کہ نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ذریعے خاندان کی پیشگی تصدیق کیے بغیر جائیداد کی منتقلی کو روک دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر خواتین کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا گیا یا پھر وہ اپنا وراثتی حق لینے سے خود پیچھے ہٹ گئی ہوں تو ان خواتین کو تجاویز اور اس کے اثرات پر مکمل سوچ بچار کا موقع دے کر خواتین ریونیو افسران کو ان کا بیان لینا چاہیے، اگر جائیداد کی منتقلی خواتین کی مرضی کے بغیر طاقت کے زور پر، دھوکے کے ذریعے یا پھر جبر سے کی گئی ہو تو افسران کو اس کی تصدیق کرنی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین کو کسی کی بیٹی یا بیوی نہیں ’عورت‘ کی حیثیت سے پہچانا جائے، شیریں مزاری

شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ جس شخص کی موت کے بعد نادرا اور ڈپٹی کمشنرز کو خواتین سمیت اصل قانونی وارثوں کی تصدیق کرنی چاہیے، خواتین کو زیادہ تر خاندان کے حصے میں شامل نہیں کیا جاتا اور یہاں تک کہ وراثت سے بے دخل کرنے کے لیے نادرا تک میں رجسٹرڈ نہیں کرایا جاتا ہے۔

مذکورہ شکایت، وکیل زینت معیب کاکاخیل اور نعمان محب کاکاخیل کے ذریعے درج کی گئی، جس میں ڈپٹی کمشنرز، نادرا، پیمرا، پی ٹی اے اور دیگر ادارے مختلف حکومتی اتھارٹیز کو فریق بنایا گیا ہے جو خواتین کو ان کے جائیداد کے حقوق دلانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کے پی وومن آنرشپ رائٹس ایکٹ 2019 کے تحت محتسب کو اس بات کے اختیارات دیے گئے تھے کہ وہ خواتین کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے دفاتر قائم کریں اور کام کی جگہوں پر ہراساں کیے جانے سے متعلق ورک پلیس ایکٹ 2010 کی ہدایات کو یقینی بنائیں اور ان کی حدود پورے صوبے میں بڑھادی گئی تھیں اور اس میں صوبے میں ضم کیے گئے قبائلی اضلاع کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’یوم خواتین‘: وجود زن پر ظلم کی داستان سنانے والی چند تحاریک

شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ محتسب کا دفتر خیبر پختونخوا ویمن اونرشپ رائٹس ایکٹ 2019 کے تحت اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے کا اختیار رکھتا ہے کیونکہ ریاستی مشینری اور تمام حکام اس کے احکامات پر عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک وکیل کی حیثیت سے انہیں روز مرہ کی بنیاد پر خواتین کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد سے انکار کے حوالے سے کیسز ملتے رہتے ہیں اور خواتین کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ قانونی طور ان حقوق کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔

شکایت کنندہ نے دعویٰ کیا کہ کچھ خواتین خاندان کے لوگوں کے ڈر سے، خراب مالی حالات اور طویل قانونی طریقہ کار کے باعث اپنی جائیداد کے حق کے لیے عدالت نہیں پہنچ پاتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں