اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعے کی تحقیقات کا حکم

اپ ڈیٹ 13 نومبر 2020
انسپکشن ٹیم کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ احتجاجی مارچ کی شفاف تحقیقات کریں اور دو دن میں اپنی رپورٹ پیش کریں، اعلامیہ — فوٹو:وائٹ اسٹار
انسپکشن ٹیم کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ احتجاجی مارچ کی شفاف تحقیقات کریں اور دو دن میں اپنی رپورٹ پیش کریں، اعلامیہ — فوٹو:وائٹ اسٹار

پشاور: خیبرپختونخوا کے گورنر شاہ فرمان، جو صوبے میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کے چانسلر بھی ہیں، نے گورنر انسپیکشن ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ وہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں اساتذہ کی جانب سے طالبات کو ہراساں کرنے کے مبینہ واقعے کی تحقیقات کریں اور دو روز کے اندر اپنی رپورٹ پیش کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ گورنر نے چند فیکلٹی ممبران کی جانب سے طالب علموں کو ہراساں کرنے کے خلاف احتجاجی مارچ کا نوٹس لیا۔

واضح رہے کہ یونیورسٹی کی طلبا تنظیم نے بدھ کے روز کیمپس میں ہراساں ہونے کے خلاف آگاہی واک کا اہتمام کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پشاور: یونیورسٹی کی طالبات کا اساتذہ کی جانب سے ‘ہراساں‘ کیے جانے کے خلاف احتجاج

بیان میں کہا گیا کہ ’انسپکشن ٹیم کے چیئرمین کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ احتجاجی مارچ کی شفاف تحقیقات کریں اور دو دن میں اپنی رپورٹ پیش کریں‘۔

مزید کہا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں ہراساں کیے جانے کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے اور طلبہ کی عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت اسلامیہ کالج یونیورسٹیز سمیت تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ کو مکمل تحفظ فراہم کرے گی۔

اسلامیہ کالج کی طلبہ تنظیم کی نائب صدر میمونہ خان نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یونیورسٹی میں اساتذہ اور طالب علم لڑکوں کی جانب سے لڑکیوں کو ہراساں کرنے کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کو ہراساں کرنے کے بڑھتے ہوئے واقعات اور اس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے مجرمان کے خلاف کارروائی میں سستی کی وجہ سے واک کا اہتمام کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: نجی اسکولوں کی طالبات کے اساتذہ پر جنسی ہراسانی کے الزامات، وزارت انسانی حقوق کا نوٹس

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کی انسداد ہراساں کمیٹی غیر فعال ہوگئی ہے اور چار سے پانچ شکایات کے اندراج کے باوجود انتظامیہ نے کوئی کارروائی نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اساتذہ مختلف حربے اپناتے ہیں اور لڑکیوں کو بلیک میل کرنے کے لیے غیر مناسب مطالبات کرتے ہیں جبکہ طالب علم لڑکوں نے بھی طالبات کو ہراساں کرنے کی کوشش کی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک طالبہ نے محکمہ کے چیئرپرسن کے خلاف شکایات درج کروائیں اور اس معاملے کو رجسٹرار کے نوٹس میں لایا گیا تھا۔

یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر ابرار سے رابطہ کرنے پر اس بات کی تصدیق ہوئی کہ ایک طالبہ کے والدین ان کے دفتر آئے تھے اور انہوں نے ایک شعبے کے چیئرپرسن کے خلاف شکایت درج کروائی تھی۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کی انسداد ہراساں کمیٹی آج اس معاملے پر کارروائی کا آغاز کرے گی۔

ایم پی اے خلیق الرحمٰن جو اعلیٰ تعلیم کے بارے میں وزیر اعلیٰ کے مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں، نے اعتراف کیا کہ تعلیمی اداروں میں ہراساں کیے جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے اور اس طرح کی شکایات مختلف اداروں سے اکثر آتی رہتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے تعلیمی اداروں میں طالبات کو ہراساں کرنا ایک تلخ حقیقت ہے اور کیسز کی اطلاع دی جارہی ہے یونیورسٹی ایکٹ میں ہراساں کرنے سے متعلق مجوزہ دفعات کو بھی شامل کیا جائے گا'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں