کئی ماہ سے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے چینی سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ امریکا میں اپنا کاروبار فروخت کردے یا پھر پابندی کا سامنا کرے۔

ٹک ٹاک نے اس حوالے سے اوریکل اور وال مارٹ کے ساتھ شراکت داری کے ایک معاہدے پر اتفاق کیا تھا، مگر اب تک اسے حتمی شکل نہیں دی جاسکی۔

ستمبر میں امریکی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ 12 نومبر سے امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کردی جائے گی، جس کے خلاف امریکی عدالت نے حکم امتناع جاری کیا تھا۔

اب کامرس ڈیپارٹمنٹ کمٹی آن فارن انوسٹمینٹ (سی ایف آئی یو ایس) نے ٹک ٹاک کی اس مدت میں 15 دن تک بڑھا کر اسے 27 نومبر تک کی مہلت دی ہے۔

اس مہلت کے دوران ٹک ٹاک کو شراکت داری کے معاہدے کو حتمی شکل دینی ہوگی یا پابندی کا سامنا کرنا ہوگا۔

خیال رہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ٹک ٹاک پر پابندی کے صدارتی حکم کے خلاف تو عدالت نے حکم امتناع جاری کیا، مگر صدر کے 14 اگست کے ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت ایپ کی فروخت کی شرط ختم نہیں ہوئی۔

صدارتی انتخابات کے نتائج کے بعد ٹک ٹاک نے رواں ہفتے سی ایف آئی یو ایس کے خلاف ایک درخواست دائر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اب ب ھی معاہدے میں دلچسپی رکھتی ہے یا نہیں، کیونکہ لگ بھگ 2 ماہ سے اس بارے میں کمپنی کو کوئی رابطہ نہیں کیا گیا، اور حکم نامے کا اسٹیٹس کیا ہے۔

اب سی ایف آئی یو ایس نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر کے 14 اگست کے حکم کے تحت بائیٹ ڈانس اور ٹک ٹاک کو قومی سلامتی کے خدشات دور کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔

ادارے کے مطابق مدت میں توسیع سے فریقین اور کمیٹی کو اس معاملے کو حل کرنے کے لیے اضافی وقت مل سکے گا۔

اس سے قبل گزشتہ روز رپورٹ سامنے آئی تھی کہ امریکی حکومت نے شارٹ ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک پر فوری پابندی کے فیصلے کو بھی عارضی طور پر ملتوی کردیا ہے۔

اگرچہ پہلے ہی امریکی عدالت نے حکومت کو ٹک ٹاک پر پابندی لگانے سے روک دیا تھا تاہم خیال کیا جا رہا تھا کہ 12 نومبر کو امریکی حکومت ٹک ٹاک پر پابندی سے متعلق نئی تاریخ کا اعلان کرے گی۔

ستمبر میں امریکی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ 12 نومبر سے امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کردی جائے گی۔

تاہم 31 اکتوبر کو امریکی ریاست پنسلوانیا کی عدالت نے حکومت کو 12 نومبر سے پابندی لگانے سے روک دیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت نے بھی واضح کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست اور نئے صدر کے عہدے سنبھالنے تک قانونی پیچیدگیوں کے باعث فوری طور پر ٹک ٹاک پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی اور حکومتی عدالتی فیصلے پر عمل کرے گی۔

ٹیکنالوجی ویب سائٹ ٹیک کرنچ کے مطابق امریکا کے جسٹس اینڈ کامرس ڈپارٹمنٹ نے 12 نومبر کی مدت گزرنے کے بعد واضح کیا کہ فوری طور پر ٹک ٹاک پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔

امریکی حکومت کے مطابق نومنتخب صدر کی جانب سے عہدہ سنبھالے جانے تک قانونی و انتظامی پیچیدگیوں کے باعث فیصلے کو ملتوی کیا جا رہا ہے۔

امریکی حکومت نے واضح نہیں کیا کہ کب تک ٹک ٹاک پر پابندی لگانے یا نہ لگانے سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جائے گا، تاہم اب خیال کیا جا رہا ہے کہ چینی ایپ پر امریکا میں پابندی نہیں لگائی جائے گی۔

خیال رہے کہ امریکی حکومت نے بھی واضح کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست اور نئے صدر کے عہدے سنبھالنے تک قانونی پیچیدگیوں کے باعث فوری طور پر ٹک ٹاک پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی اور حکومتی عدالتی فیصلے پر عمل کرے گی۔

ٹیکنالوجی ویب سائٹ ٹیک کرنچ کے مطابق امریکا کے جسٹس اینڈ کامرس ڈپارٹمنٹ نے 12 نومبر کی مدت گزرنے کے بعد واضح کیا کہ فوری طور پر ٹک ٹاک پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔

امریکی حکومت کے مطابق نومنتخب صدر کی جانب سے عہدہ سنبھالے جانے تک قانونی و انتظامی پیچیدگیوں کے باعث فیصلے کو ملتوی کیا جا رہا ہے۔

امریکی حکومت نے واضح نہیں کیا کہ کب تک ٹک ٹاک پر پابندی لگانے یا نہ لگانے سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جائے گا، تاہم اب خیال کیا جا رہا ہے کہ چینی ایپ پر امریکا میں پابندی نہیں لگائی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں