’ٹک ٹاک‘ امریکا میں ’اوریکل‘ کے ساتھ کام کرنے پر رضامند

دونوں کمپنیوں کے درمیان معاہدے کا جلد اعلان متوقع ہے—فوٹو: پیمنٹس ڈاٹ کام
دونوں کمپنیوں کے درمیان معاہدے کا جلد اعلان متوقع ہے—فوٹو: پیمنٹس ڈاٹ کام

دنیا کی سب سے بڑی شارٹ ویڈیو سوشل شیئرنگ ایپلی کیشن ’ٹک ٹاک‘ نے 14 ستمبر کو عندیہ دیا ہے کہ وہ امریکا میں ممکنہ طور پر کمپیوٹر سافٹ ویئر کمپنی ’اوریکل‘ کے ساتھ کام کرے گی۔

’ٹک ٹاک‘ نے یہ عندیہ ایسے وقت پر دیا ہے جب کہ ایک دن قبل 13 ستمبر کو امریکی کمپنی مائیکرو سافٹ نے کہا تھا کہ چینی ایپ انتظامیہ نے ان کی جانب سے خریداری کی پیش کش کو مسترد کردیا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ’ٹک ٹاک‘ کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس نے مائیکرو سافٹ کے بجائے اوریکل کے ساتھ امریکا میں کام کرنے پر رضامندی ظاہر کردی۔

رپورٹ میں مذکورہ معاہدے سے منسلک ایک شخص کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ’ٹک ٹاک‘ اپنے امریکی شیئرز مکمل طور پر امریکی سافٹ ویئر کمپنی ’اوریکل‘ کو فروخت کرے گا یا اس کے ساتھ مشترکہ طور پر کوئی نیا سیٹ بنایا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر نے ٹک ٹاک اور وی چیٹ پر پابندیوں کے احکامات جاری کردیے

’ٹک ٹاک‘ اور ’اوریکل‘ کے درمیان معاہدہ طے پانے پر فوری طور پر وائٹ ہاؤس یا ٹک ٹاک نے کوئی آفیشل رد عمل نہیں دیا، جب کہ اوریکل بھی فوری طور پر اس حوالے سے بیان دینے سے گریزاں ہے۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ معاہدے کے تحت ’ٹک ٹاک‘ اور ’اوریکل‘ پارٹنرشپ بنیاد پر امریکی صارفین کے ڈیٹا کے تحفظ پر کام کریں گے۔

یعنی ’اوریکل‘ صرف امریکا میں ’ٹک ٹاک‘ کے صارفین کے ڈیٹا کے معاملات کو پارٹنرشپ بنیادوں پر دیکھے گا، تاہم فی الحال اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

اگرچہ دونوں کمپنیوں کے درمیان تقریبا معاہدہ طے پاگیا ہے تاہم اس کے باوجود ان کے معاہدے کو امریکی و چینی حکومت کی منظوری درکار ہوگی۔

’ٹک ٹاک‘ اور ’اوریکل‘ کے درمیان ہونے والے معاہدے کو امریکا کی غیر ملکی سرمایہ کاری سے متعلق محکمہ خزانہ کی خصوصی کمیٹی (سی ایف آئی یو ایس) کی لازمی منظوری درکار ہوگی۔

ٹک ٹاک کو 90 دن میں اپنے امریکی اثاثے فروخت کرنے کا حکم دیا گیا تھا—فوٹو: رائٹرز
ٹک ٹاک کو 90 دن میں اپنے امریکی اثاثے فروخت کرنے کا حکم دیا گیا تھا—فوٹو: رائٹرز

مذکورہ کمیٹی کی سربراہی ٹریزری سیکریٹری کے پاس ہے اور مذکورہ کمیٹی کی سفارشات پر ہی امریکی صدر معاہدے کی منظوری یا منسوخی دے سکیں گے۔

اسی طرح دونوں کمپنیوں کو چینی حکومت کی جانب سے بھی منظوری لینی ہوگی۔

مزید پڑھیں: چین ٹک ٹاک کی فروخت کی بجائے اسکی بندش کو ترجیح دے گا، رپورٹ

’ٹک ٹاک‘ کے امریکی انتظامات خریدنے یا دیکھنے کے لیے مائیکرو سافٹ اور اوریکل کے علاوہ ایپل اور ول مارٹ سمیت دیگر کمپنیوں نے بھی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

امریکی کمپنیوں نے ’ٹک ٹاک‘ کے امریکی انتظامات خریدنے یا دیکھنے کی دلچسپی اس وقت ظاہر کی تھی جب کہ گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی ایپ پر قومی سلامتی کے الزامات لگاتے ہوئے اسے امریکی اثاثے فروخت کرنے کے لیے 45 دن کی مہلت دی تھی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ 6 اگست کو ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے ٹک ٹاک کو آئندہ 45 دن میں اپنے امریکی اثاثے کسی دوسری امریکی کمپنی کو فروخت کرنے کی مہلت دی تھی۔

صدارتی حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اگر چینی ایپلی کیشنز کو آئندہ 45 دن میں کسی امریکی کمپنی کو فروخت نہیں کیا گیا تو ان پر امریکا میں پابندی لگادی جائے گی۔

ٹک ٹاک کو 15 ستمبر 2020 کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی تاہم بعد ازاں 16 اگست کو ٹرمپ انتظامیہ نے مذکورہ مدت میں مزید 45 دن کا اضافہ کردیا تھا۔

ٹک ٹاک نے امریکی صدر کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکی صارفین کا ڈیٹا چین کو فراہم نہیں کرتی اور بعد ازاں ایپلی کیشن انتظامیہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم کے خلاف امریکی عدالت سے بھی رجوع کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اوریکل ٹک ٹاک کے امریکی بزنس کو خریدنے کے لیے تیار

ٹک ٹاک نے عدالت میں دائر درخواست میں کہا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 6 اگست کے ایگزیکٹو آرڈر کو چیلنج کرتے ہوئے کہا گیا کہ 'بغیر کسی شواہد کے اتنا سخت فیصلہ کیا گیا اور وہ بھی مناسب طریقہ کار کے بغیر'۔

دوسری جانب اگست کے اختتام پر چین نے ملکی برآمدات کے قوانین کو اپ ڈیٹ کیا تھا جس میں حساس ٹیکنالوجیز کو شامل کیا گیا تھا۔

چین کے سرکاری خبررساں ادارے ژن ہوا نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ نئے قوانین کا مطلب یہ بھی ہے کہ ٹک ٹاک کی ملکیت رکھنے والی کمپنی بایئٹ ڈانس کو امریکا میں کاروبار فروخت کرنے کے لیے پہلے لائسنس لینا ہوگا۔

ٹک ٹاک اور اوریکل کے درمیان ایک ساتھ کام کرنے کی رضامندی پر تاحال وائیٹ ہاؤس نے کوئی بیان نہیں دیا—فوٹو: رائٹرز
ٹک ٹاک اور اوریکل کے درمیان ایک ساتھ کام کرنے کی رضامندی پر تاحال وائیٹ ہاؤس نے کوئی بیان نہیں دیا—فوٹو: رائٹرز