لاہور: مشتبہ شخص کی حراست میں موت پر 3 پولیس اہکار معطل

15 نومبر 2020
پولیس افسران کے خلاف یہ کارروائی ایک انکوائری کے بعد کی گئی — فائل فوٹو: پنجاب پولیس فیس بک
پولیس افسران کے خلاف یہ کارروائی ایک انکوائری کے بعد کی گئی — فائل فوٹو: پنجاب پولیس فیس بک

لاہور: پولیس حکام نے حراست میں مشتبہ شخص کی مبینہ تشدد سے موت پر واہگہ پولیس چیک پوائنٹ کے انچارج سمیت 2 کانسٹیبلز کو معطل کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس افسران کے خلاف یہ کارروائی ایک انکوائری کے بعد کی گئی جس میں ان پر الزامات ثابت ہوئے۔

ابتدائی رپورٹس کے مطابق پولیس اہلکار نے منشیات کیس میں 40 سالہ رضوان کو ’گرفتار‘ کیا تھا اور تفتیش کے دوران مبینہ طور پر اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: حراست میں موت: پولیس اہلکاروں کے خلاف نوجوان کے 'اغوا' کا مقدمہ درج

بعد ازاں پولیس نے مشتبہ شخص کو تشویشناک حالت میں مقامی ہسپتال منتقل کیا جہاں وہ دم توڑ گیا۔

اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) نے لاہور پولیس سے رپورٹ طلب کی تھی۔

لاہور پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 3 پولیس اہلکاروں کو ملازمت سے معطل کرنے کے بعد کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) نے واقعے کی باقاعدہ تحقیقات کے لیے مناواں سرکل کے ڈپٹی سپرٹینڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) کو تعینات کردیا ہے۔

خیال رہے اس سے قبل بھی پولیس حراست میں ملزمان پر تشدد کے باعث موت واقع ہوجانے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔

رواں ماہ اسلام آباد کے تھانہ شالیمار میں ملزم کی پراسرار ہلاکت پر اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) کو معطل کردیا گیا تھا، پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ ملزم منیر عرف محسن کی تشدد سے طبعیت بگڑ گئی تھی جس پر اسے ہسپتال منتقل کیا گیا اور ہسپتال پہنچنے تک ملزم کی موت واقع ہوچکی تھی۔

مزید پڑھیں: ’تشدد سے ہلاک‘ ہونے والے صلاح الدین کے اہلِ خانہ نے پولیس اہلکاروں کو معاف کردیا

جس کے بعد پولیس کی جانب سے اس معاملے کو دبانے کی پوری کوشش کی گئی تھی تاہم آئی جی نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی آپریشنز کی سربراہی میں ایس پی سی ٹی ڈی، ایس پی انوسٹیگیشن اور ایس پی (دیہی) پر مشتمل کمیٹی قائم کردی تھی۔

اس سے قبل گزشتہ ماہ گجرات میں مقامی پولیس کے مبینہ تشدد کے نتیجے میں ایک 20 سالہ نوجوان کی موت ہو گئی تھی، اس نوجوان کو موبائل فون چوری کے شبہہ میں حراست میں رکھا گیا تھا جبکہ ملزم کے والد شرافت علی نے ککرالی پولیس میں شکایت درج کروائی تھی کہ ان کے 20 سالہ بیٹے صحاوت علی کو 5 اکتوبر کو ککرالی پولیس کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر افتخار نے چار نامزد اور متعدد نامعلوم پولیس اہلکاروں کے ہمراہ پکڑ لیا تھا لیکن جب وہ تھانے گئے تو انہیں اپنے بیٹے کی گرفتاری سے متعلق کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں تھیں۔

بعد ازاں پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی جانب سے سامنے آنے والی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق ہوگئی تھی کہ ملزم پر موت سے قبل بہیمانہ تشدد کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں