گلگت بلتستان انتخابات میں پولنگ کا وقت ختم، گنتی کا عمل جاری

—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز
کچھ علاقوں میں برف باری کے باعث ٹرن آؤٹ کم رہنے کا امکان ہے—تصویر: عمر باچا
کچھ علاقوں میں برف باری کے باعث ٹرن آؤٹ کم رہنے کا امکان ہے—تصویر: عمر باچا
خطے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی مجموعی تعداد 7 لاکھ 45 ہزار 361 ہے —تصویر: اے پی پی
خطے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی مجموعی تعداد 7 لاکھ 45 ہزار 361 ہے —تصویر: اے پی پی

کورونا وائرس کے خطرات اور شدید برف باری کے دوران گلگت بلتستان میں ہنگامہ خیز انتخابات کے لیے ووٹنگ کا مقررہ وقت ختم ہو گیا اور اب گنتی کا عمل جاری ہے۔

غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق جی بی ایل اے-24 گانچھے 3 سے پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما انجینیئر اسمٰعیل نے 6 ہزار 206 ووٹ لے کراپنی فتح کا سلسلہ جاری رکھا۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے شمس الدین نے 5 ہزار 361 ووٹ حاصل کیے۔

غیر حتمی غیر سرکاری نتیجے کے مطابق پی ٹی آئی کے راجا ذکریا خان نے جی بی ایل اے-7 اسکردو ون سے 5 ہزار 290 ووٹ حاصل کیے جبکہ سابق وزیراعلیٰ پی پی پی کے امیدوار سید مہدی شاہ 4 ہزار 114 ووٹ لے کر دوسرے نمبر رہے۔

جی بی ایل اے-9 اسکردو-3 کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق آزاد امید وار وزیر سلیم 3 ہزار 380 ووٹ لے کر آگے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے فدا ناشاد نے ایک ہزار 213 ووٹ حاصل کیے۔

گانچھے ون سے آزاد امیدوار مشتاق حسین نے پی ٹی آئی کے ابراہیم ثنائی کو غیر حتمی اور غیر سرکاری نتیجے کے مطابق شکست دی اور 6 ہزار 51 ووٹ حاصل کیے۔

غیر حتمی نتیجے کے مطابق ابراہیم ثنائی کو 4 ہزار 945 جبکہ پی پی پی کے محمد جعفر کو 2 ہزار 615 ووٹ ملے۔

گلگت بلتستان اسمبلی کی 24 عام نشستوں کے لیے پولنگ کا عمل صبح 8 بجے شروع ہوا اور شام 5 بجے تک جاری رہا جہاں 4 خواتین سمیت 330 اُمیدوار مدمقابل ہیں جبکہ ایک حلقے میں امیدوار کے انتقال کے باعث انتخابات ملتوی ہوگئے ہیں۔

گلگت بلتستان کے شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے کورونا وبا سے بچاؤ کے پیش نظر فیس ماسک پہنے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے پولنگ اسٹیشنز کے سامنے قطاروں میں کھڑے نظر آئے۔

تمام 23 حلقوں میں پولنگ کا عمل شام 5 بجے تک بلا رکاوٹ جاری رہا جبکہ گلگت شہر میں خواتین اور بزرگوں کی بھی بڑی تعداد ووٹ دینے نکلی تاہم غذر، سوست، بلتستان کے حلقوں میں شدید برف باری کے باعث لوگ گھروں میں رہنے پر مجبور ہوگئے جس کے باعث ٹرن آؤٹ کم رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں کچھ پولنگ اسٹیشنز پر بجلی کے تعطل کی بھی اطلاعات موصول ہوئیں جس کے سبب ووٹنگ کا عمل سست روی کا شکار ہوا اور عملے نے ووٹرز کے اندراج کے لیے ٹارچ کا استعمال کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان کی عبوری حکومت کی جانب سے پولنگ کے عملے کے لیے فیس ماسک، دستانوں اور سینٹائزر پر مشتمل 8 ہزار بیگز بھی فراہم کیے گئے۔

ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ووٹنگ کا عمل بغیر کسی تعطل کے صبح 8 سے شام 5 بجے تک جاری رہا مزید یہ کہ گلگت بلتستان، پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 15 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم، گلگت بلتستان انتخابات میں فتح کیلئے پُراعتماد

انتخابات کے موقع پر ایک ہزار 141 پولنگ اسٹیشنز میں سے 297 کو حساس قرار دیا گیا تھا۔

اس مرتبہ کے انتخابات کو اس لیے بھی خاصی اہمیت حاصل ہے کہ اس کے لیے اپوزیشن کی 2 جماعتوں نے جارحانہ مہم چلائی اور مذکورہ انتخابات پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ ساتھ اپوزیشن رہنماؤں بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کے لیے بھی ٹیسٹ کیس ہے۔

انتخابی مہم کے دوران سیاسی درجہ حرارت نقطہ عروج کو چھونے لگا تھا، 3 بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے خطے کے مختلف علاقوں میں عوامی جلسوں کا انعقاد کیا اور گلگت بلتستان الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ 100 نوٹسز کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ بیانات دیے۔

ایک ہزار 141 پولنگ اسٹیشنز میں سے 297 کو حساس قرار دیا گیا تھا—تصویر: اے پی پی
ایک ہزار 141 پولنگ اسٹیشنز میں سے 297 کو حساس قرار دیا گیا تھا—تصویر: اے پی پی

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جو گلگت بلتستان میں 4 ہفتوں سے قیام پذیر ہیں اپنی جماعت کی انتخابی مہم کی سربراہی کررہے تھے۔

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے بھی گلگت بلتستان کے یوم آزادی کے موقع پر منعقدہ تقریب میں شرکت کی اور علاقے کو جلد صوبائی حیثیت دینے کا اعلان کیا۔

مزید پڑھیں:گلگت بلتستان نے انتخابات میں سیکیورٹی کیلئے پنجاب کانسٹیبلری سے مدد مانگ لی

وزیر برائے امور کشمیر اور گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور، وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی بھرپور طریقے سے انتخابی مہم میں حصہ لیا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی اور پی پی پی کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔

یہ انتخابات اگست میں ہونا تھے جو کورونا وائرس کے باعث ملتوی کردیے گئے تھے، پیپلز پارٹی کی جانب سے 23 جبکہ مسلم لیگ (ن) کے 21 اُمیدوار انتخابی میدان میں اترے ہیں۔

گلگت بلتستان کے اتتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں نے بھرپور مہم چلائی—تصویر: ڈان نیوز
گلگت بلتستان کے اتتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں نے بھرپور مہم چلائی—تصویر: ڈان نیوز

پی ٹی آئی نے 2 حلقوں میں مجلس وحدت المسلمین کے ساتھ نشستوں کی ایڈجسٹمنٹ کی ہے، اس کے علاوہ پارٹی کو مقامی رہنماؤں کی شمولیت سے بھی تقویت پہنچی ہے اور فدا محمد ان سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جنہیں پارٹی ٹکٹ دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت انتخابات میں اپوزیشن کا دھاندلی کا رونا ہار سے بچنے کیلئے ہے، شبلی فراز

حال ہی میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق علاقے میں پی ٹی آئی کی پوزیشن مستحکم ہے جس کے بعد پیپلز پارٹی کو خاصی حمایت حاصل ہے۔

قبل ازیں گلگت بلتستان کو فیڈرلی ایڈمنسٹرڈ ناردرن ایریاز کے نام سے جانا جاتا تھا جو علیحدہ نظام حکومت اور الیکٹورل فریم ورک کے ساتھ ایک خود مختار علاقہ ہے۔

خطے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی مجموعی تعداد 7 لاکھ 45 ہزار 361 ہے جس میں 4 لاکھ 50 ہزار 305 مرد جبکہ 3 لاکھ 39 ہزار 998 خواتین شامل ہیں، اسطرح خواتین ووٹرز کا تناسب 45.61 فیصد ہے۔

2015 کے انتخابات میں ووٹرز کی مجموعی تعداد 6 لاکھ 18 ہزار 364 تھی جس میں 3 لاکھ 29 ہزار 475 مرد اور 2 لاکھ 88 ہزار 889 خواتین شامل تھیں، اس وقت خواتین ووٹرز کا تناسب 46.71 فیصد تھا اس طرح حالیہ اعداد و شمار کے مطابق خواتین اور مرد ووٹرز کے فرق میں 1.10 فیصد کا اضافہ ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں