اسلامیہ کالِجیٹ میں کوآرڈینیٹر کے تقرر نے تنازع کھڑا کردیا

اپ ڈیٹ 16 نومبر 2020
اسکول کے اساتذہ نے شکوہ کیا کہ باقاعدہ پرنسپل کی موجودگی میں نئے عہدے کی کوئی ضرورت نہیں تھی—تصویر: فیس بک
اسکول کے اساتذہ نے شکوہ کیا کہ باقاعدہ پرنسپل کی موجودگی میں نئے عہدے کی کوئی ضرورت نہیں تھی—تصویر: فیس بک

پشاور: پرنسپل اور وائس پرنسپل کی موجودگی میں کوآرڈینیٹر کی موجودگی نے اسلامیہ کالج یونیورسٹی سے منسلک اسلامیہ کالجیٹ میں متوازی انتظامیہ تشکیل دے دی ہے جس کے نتیجے میں داخلوں، تعیناتیوں، اساتذہ کو ذمہ داریاں تفویض کرنے اور گھروں کی الاٹمنٹ میں بے ضابطگیاں ہورہی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر نوشاد خان نے اسلامیہ کالجیٹ اسکول (آئی سی ایس) کے ایک استاد معصوم خٹک کو پرنسپل کا کوآرڈینیٹر تعینات کیا تھا۔

تاہم اسکول کے اساتذہ نے شکوہ کیا کہ باقاعدہ پرنسپل کی موجودگی میں نئے عہدے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ کیمپس کے اندر اساتذہ کے تبادلے، نئی تعیناتیاں، داخلوں میں بے ضابطگیاں، سرکاری رہائش گاہوں کی الاٹمنٹ، ذمہ داریوں کی تفویض اور جماعتوں کی غیر منصفانہ تقسیم ظاہر کرتی ہے کہ کوآرڈینیٹر فیصلے کررہے ہیں جبکہ پرنسپل خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے پرو وائس چانسلر کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا

دوسری جانب اسلامیہ کالج کے رجسٹرار نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تعیناتی کا مقصد اسکول کے انتظامی اور تعلیمی امور میں پرنسپل کو معاونت فراہم کرنا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اسلامیہ کالجیٹ اسکول ہر سال داخلے کے لیے ایک ٹیسٹ کا انعقاد کرتا ہے لیکن سال 21-2020 کے لیے ایک سے زائد ٹیسٹس کیے گئے اور فیل ہونے والے طلبہ کو بھی داخلہ دیا گیا۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ حال ہی میں تجربہ کار اساتذہ کو برطرف کر کے مقررہ طریقہ کار پر عمل کیے بغیر نئے اساتذہ کو بھرتی کیا گیا۔

اسلامیہ کالجیٹ اسکول کے 3 کیمپسز ہیں جس میں سالوں سے اساتذہ کام کررہے ہیں، اساتذہ پالیسی کے تحت دوسرے سیکشنز میں پڑھانے کا موقع حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں پسندیدگی اور اقربا پروری کی بنیاد پر مقرر کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعے کی تحقیقات کا حکم

ذرائع کا کہنا تھا کہ کئی اساتذہ کے ایک سیکشن سے دوسرے سیکشن میں تبادلے کوآرڈینیٹر نے منسوخ کردیے، سینئر وارڈنز، وارڈنز اور کنٹرولر امتحانات کے عہدے، عملے کے چند اراکین کو دیے گئے لیکن اس میں بھی 81 مستقل اساتذہ کو زیادہ تر نظر انداز کیا گیا۔

ان عہدوں پر الاؤنسز دیے جاتے ہیں، کچھ اساتذہ کے پاس پڑھانے کی بنیادی ذمہ داری کے علاوہ ایک سے زائد عہدے ہیں جس کے لیے انہیں ادائیگی کی جاتی ہے۔

علاوہ ازیں مضامین مختص کرنے کے معاملات بھی تشویش کا باعث ہے کیوں کہ ان میں سے کچھ کو وہ مضامین پڑھانے کے لیے دیے گئے ہیں جس میں ان کی کوئی قابلیت نہیں ہے۔

ساتھ ہی اسکول کی سرکاری رہائش گاہوں کی الاٹمنٹ کے اوپر قانونی معاملات بھی مسائل پیدا کررہے ہیں اور متعدد گھر بند پڑے ہیں بلکہ پرنسپل کا زیر تعمیر گھر بھی ایک سے ڈیڑھ سال کے عرصے سے خالی پڑا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ کا اسلامیہ کالج میں نئی تعمیرات پر حکم امتناع

ذرائع کے مطابق انتظامیہ کی عدم دلچسپی کے سبب متعدد اسکول کے متعدد اساتذہ اپنی ترقی کے لیے عدالت سے رجوع کرچکے ہیں، انہوں نے الزام لگایا کہ اسکول کی خاتون پرنسپل ایک ڈاک خانے کی طرح کام کررہی ہیں جبکہ اصل اختیارات کوآرڈینیٹر استعمال کررہے ہیں۔

اس ضمن میں جب رجسٹرار اسلامیہ کالجیٹ محمد ابرار سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ کوئی بے ضابطگیاں نہیں ہورہیں اور کوآرڈینیٹر کی تعیناتی اسکول کے مفاد میں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں