بلاول اور مریم کا گلگت بلتستان انتخابات میں ‘چوری اور دھاندلی‘ کا الزام

اپ ڈیٹ 16 نومبر 2020
گلگت بلتستان اسمبلی کی 24 نشستوں پر انتخابات گزشتہ روز منعقد ہوئے تھے— فوٹو: ٹوئٹر
گلگت بلتستان اسمبلی کی 24 نشستوں پر انتخابات گزشتہ روز منعقد ہوئے تھے— فوٹو: ٹوئٹر

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے گلگت بلتستان انتخابات پر سوالات اٹھاتے ہوئے اس میں ’چوری‘ اور ’دھاندلی‘ کے الزامات لگا دیے۔

سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ ’میرا الیکشن چوری کرلیا گیا، میں جلد گلگت بلتستان کے عوام کے احتجاج میں ان کے ساتھ شریک ہوں گا‘۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی گلگت بلتستان انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے حکمراں جماعت کے لیے سادہ اکثریت حاصل نہ کرپانے کو شرمناک قرار دیا۔

سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ’پوری ریاستی طاقت، حکومتی اداروں، سرکاری مشینری کا زور زبردستی اور جبر کے ہتھکنڈوں سے وفاداریاں تبدیل کرانے اور بدترین دھاندلی کے باوجود سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کرنا شرمناک شکست ہے‘۔

ایک دوسرے پیغام میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا نام لیے بغیر مخاطب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ ’پنجاب اور وفاق کی طرح سادہ اکثریت نہ ملنے کے باوجود تمھیں بیساکھیاں فراہم کر کے حکومت تو بنوا دی جائے گی لیکن اس آئینے میں اپنا چہرہ ضرور دیکھو جو گلگت بلتستان کے عوام نے تمہیں دکھایا ہے‘۔

مریم نواز نے کہا کہ گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کا نہ پہلے کوئی وجود تھا نہ اب ہے، اسے بھیک میں ملنے والی چند سیٹیں دھونس، دھاندلی، مسلم لیگ (ن) سے توڑے گئے اُمیدواروں اور سلیکٹرز کی مرہون منت ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وفاق میں موجود حکمران جماعت کو پہلی مرتبہ یہاں ایسی شکست فاش ہوئی ہے، یہ شکست آنے والے دنوں کی کہانی سنارہی ہے۔

خیال رہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کی 23 نشستوں پر انتخابات گزشتہ روز منعقد ہوئے تھے جس کے اب تک کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو واضح برتری حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان انتخابات: نتائج آنے کا سلسلہ جاری، تحریک انصاف کو برتری حاصل

غیر حتمی نتائج کے مطابق اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) دوسرے نمبر پر ہے اور پی پی پی کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے بھی پولنگ اور گنتی کے عمل کے دوران بے ضابطگیوں اور مبینہ دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔

قبل ازیں مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے گلگت بلتستان کے انتخابات میں دھاندلی کے الزمات عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو چیزیں 2018 کے عام انتخابات میں دیکھی گئیں وہ ہی سب گلگت انتخابات میں بھی ہوا۔

گزشتہ روز بھی پیپلز پارٹی کی جانب سے الزامات عائد کیے گئے تھے کہ ریٹرننگ افسران گنتی کا عمل مکمل ہونے کے باوجود نتائج کا اعلان نہیں کررہے اور غذر کے ایک پولنگ اسٹیشن میں رات 11 بجے تک پولنگ جاری رہی اور اس کے بعد پی ٹی آئی کارکنوں نے موقع سے بیلٹ باکس چھینے۔

علاوہ ازیں ووٹوں کی گنتی کے وقت اسکردو میں پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنان کے مابین جھڑپ بھی ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں: گلگت الیکشن: پیپلز پارٹی کا پی ٹی آئی کے اُمیدواروں کو نااہل قرار دینے کا مطالبہ

دوسری جانب ترجمان بلال بھٹو زرداری مصطفیٰ نواز کھوکھر نے گزشتہ روز بھی الزام عائد کیا تھا جن حلقوں میں کانٹے دار مقابلہ ہے وہاں پولنگ کا عمل سست روی کا شکار کیا گیا اور ووٹروں کی حوصلہ شکنی کی گئی۔

خیال رہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کی 24 نشستوں پر انتخابات 15نومبر کو ہوئے جس میں 4 خواتین سمیت 330 اُمیدواروں نے حصہ لیا تاہم ایک حلقے میں انتخابات ملتوی ہوگئے ہیں۔

ووٹنگ کا عمل بغیر کسی تعطل کے صبح 8 سے شام 5 بجے تک جاری رہا مزید یہ کہ گلگت بلتستان، پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 15 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا۔

انتخابات کے موقع پر ایک ہزار 141 پولنگ اسٹیشنز میں سے 297 کو حساس قرار دیا گیا تھا۔

اس مرتبہ کے انتخابات کو اس لیے بھی خاصی اہمیت حاصل تھی کہ اس کے لیے اپوزیشن کی 2 جماعتوں کے علاوہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے بھرپور مہم چلائی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں