واجبات کی عدم ادائیگی: کے ایم سی ٹھیکیداروں نے سڑکوں کی مرمت کا کام روک دیا

16 نومبر 2020
ٹھیکیداروں نے بلدیاتی نظام کو بہتر کرنے کی اسکیموں پر کام کو مکمل طور پر بند کردیا ہے —فائل فوٹو: علی رضا کھتری
ٹھیکیداروں نے بلدیاتی نظام کو بہتر کرنے کی اسکیموں پر کام کو مکمل طور پر بند کردیا ہے —فائل فوٹو: علی رضا کھتری

کراچی: صوبائی حکومت بین الاقوامی عطیات دہندہ تنظیموں کی مدد سے میگا پروجیکٹس (بڑے منصوبوں) پر توجہ دیتی نظر آرہی ہے جبکہ شہر کے تقریباً ہر حصے میں موجود سڑکوں کی بحالی اور مرمت کا کام کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے ٹھیکیداروں کی جانب سے واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث کافی عرصے سے رکا ہوا ہے جو لوگوں کے لیے مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باوثوق ذرائع کا کہنا تھا کہ بہت سے ٹھیکیداروں کو سڑکوں، فلائی اوورز اور بائی پاسز کی مرمت اور بحالی کا کام تفوض کیا گیا تھا، لیکن چونکہ انہیں اس کام کے بھی پیسے نہیں دیے گئے جو وہ پہلے ہی کرچکے تھے لہٰذا جاری منصوبوں پر کام کو روک دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی شہری اور ضلعی انتظامیہ صوبائی حکومت سے فنڈز ریلیز کروانے میں بھی ناکام ہوچکی ہے ،تاہم صوبے کے دوسرے اضلاع کی ترقی اور انہیں بہتر بنانے کے لیے فنڈز ریلیز کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سڑکوں کی تعمیر کیلئے 2 کھرب 90 ارب روپے لاگت کے منصوبے منظور

سابق میئر کراچی وسیم اختر نے کراچی کے منصوبوں کے لیے فنڈز نہ دینے کو سراسر ناانصافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹھیکیداروں کو 2012 سے اب تک بجٹ بک سے 11 ارب روپے دیے جانے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کو 2020 کی چار سہ ماہیوں تک 3 ارب 30 کروڑ روپے ملنے تھے لیکن صوبائی حکومت نے پہلی سہ ماہی میں صرف 62 کروڑ 50 لاکھ روپے دیے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب کے ایم سی کو صوبائی حکومت نے پیسے ہی نہیں دیے تو ٹھیکیداروں کو بلوں کی ادائیگی کیسے ممکن ہوتی؟ پورے ملک کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے والے شہر میں پیپلز پارٹی کی زیر قیادت سندھ حکومت کا یہ طرز عمل شہری اور بلدیاتی مسائل پر ان کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی کو ملنے والے 1100 ارب کی کہانی ہے کیا؟

بلدیاتی انتظامیہ میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ پچھلے مالی سال میں 2 ارب 50 کروڑ روپے کی کمی کے باعث 400 ترقیاتی منصوبے متاثر ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ سڑکوں کی مرمت، گلیوں، فٹ پاتھ (سڑک پر پیدل چلنے کا راستہ)، نکاسی آب اور سیوریج سے متعلق 200 اسکیموں پر کام فنڈز نہ ملنے کے باعث تعطل کا شکار ہو چکا ہے، ٹھیکیداروں کو منظور شدہ بلوں کی عدم ادائیگی پر حقیقی معنوں میں مکمل طور پر کام کو روک دیا گیا ہے۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ آخری مون سون بارشوں کے باعث شہر کے تقریباً ہر علاقے کی اندرونی سڑکیں بہت بڑی تعداد میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہیں، جنہیں فوری طور پر مرمت اور بحالی کے کام کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی کے 3 بڑے نالوں کی صفائی کا کام ایف ڈبلیو او کے سپرد

انہوں نے بتایا کہ مرمت اور بحالی کی جن اسکیموں کے کام کو روک دیا گیا ہے اس میں یونیورسٹی روڈ پر جیل فلائی اوور سے حسن اسکوائر تک، لیاقت آباد سے نارتھ کراچی تک مختلف اہم سڑکوں کو جوڑنے کا کام (پیچ ورک)، راشد منہاس روڈ پر امتیاز سپر مارکیٹ سے شاہراہ فیصل تک، فیڈرل بی ایریا کی کئی سڑکیں، ماڈل کالونی، کھوکراپار، کورنگی، ملیر، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، سر شاہ سلیمان روڈ پر عیسیٰ نگری سے آگے تک، شاہراہ قائدین سے شاہراہ فیصل تک، جہانگیر روڈ تین ہٹی سے گرومندر تک، گلشن اقبال، گلستان جوہر اور مشرقی اور مغربی علاقوں میں واقع متعدد سڑکوں کی مرمت کا کام شامل تھا۔

مزید یہ کہ جن اسکیموں پر کام روکا گیا ہے ان میں شہر کے بہت سے علاقوں میں نکاسی آب اور سیوریج کا کام بھی شامل ہے، جبکہ شہر کے بہت سے حصوں میں ٹوٹی ہوئی سڑکیں، پانی اور سیوریج کی بہتی ہوئی پائپ لائنز نظر آرہی ہیں۔

3 ارب 30 کروڑ کا خسارہ

کے ایم سی کے اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ سالانہ ضلعی ترقیاتی منصوبے کے تحت شہر کی بلدیاتی انتظامیہ کو ملنے والے فنڈز میں کمی ستمبر تک 3 ارب 32 کروڑ 50 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔

مزید پڑھیں: محکمہ موسمیات کی کراچی میں ایک بار پھر تیز بارشوں کی پیش گوئی

ان کا کہنا تھا کہ کراچی کنسٹرکٹر ایسوسی ایشن (کے سی اے) کے چیئرمین ایس ایم نعیم کاظمی کے مطابق شہر کا انفرااسٹرکچر (ڈھانچہ) بہت ہی نازک حالت میں ہے اور اگر سڑکوں کی مرمت اور بحالی کے کام کو فوری طور پر دوبارہ شروع نہ کیا گیا تو شہر کا انفرااسٹرکچر تباہ ہوجائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کا محکمہ ٹھیکیداروں کو واجبات کی ادائیگی کے معاملے پر سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے پر غور کر رہا ہے۔

نعیم کاظمی کا کہنا تھا کہ ٹھیکیداروں نے بلدیاتی نظام کو بہتر کرنے کی اسکیموں پر کام کو بند کردیا ہے کیونکہ انہیں منظور شدہ بلوں کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں