اسلام آباد اور کابل کا افغانستان میں تشدد کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششوں کو تیز کرنے پر اتفاق

اپ ڈیٹ 20 نومبر 2020
وزیراعظم عمران خان اور افغان صدر نے مشترکہ پریس کانفرنس کی — فوٹو: پی آئی ڈی
وزیراعظم عمران خان اور افغان صدر نے مشترکہ پریس کانفرنس کی — فوٹو: پی آئی ڈی
وزیراعظم عمران خان اور افغان صدر نے مشترکہ پریس کانفرنس کی—فوٹو: اے پی
وزیراعظم عمران خان اور افغان صدر نے مشترکہ پریس کانفرنس کی—فوٹو: اے پی

پاکستان اور افغانستان نے قریبی تعاون اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے ذریعے افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات کے حالیہ سلسلے کو کم کرنے کے لیے اپنی مشترکہ کوششوں کو تیز کرنے پر اتفاق کیا۔

سرکاری خبررساں ادارے اے پی پی نے رپورٹ کیا کہ افغان صدارتی محل میں وزیراعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی نے مشترکہ پریس کانفرنس کی، جس میں افغانستان میں امن اور استحکام کی بحالی کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔

اپنے پہلے دورہ افغانستان کے موقع پر پریس کانفرنس میں عمران خان نے سب سے پہلے صدر اشرف غنی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں 50 سال سے کابل اور افغانستان کا دورہ کرنے کا سوچ رہا تھا لیکن یہ کبھی ہو نہیں سکا اور اب آپ نے مجھے یہ موقع فراہم کیا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان ایک روزہ دورے پر کابل پہنچ گئے

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ 60 اور 70 کی دہائی میں پاکستانیوں کے لیے کابل پسندیدہ جگہ تھی جبکہ افغانوں کے لیے پشاور تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے تاریخی تعلقات ہیں، میں نے ایسے وقت میں جب افغانستان میں تشدد بڑھ رہا ہے، دورے کا خیال اس لیے کیا کیونکہ پاکستانی حکومت اور پاکستان کے لوگ افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے لوگ 4 دہائیوں سے ان حالات کا سامنا کر رہے ہیں اور اگر کسی انسانی برادری کو امن کی ضرورت ہے تو وہ افغانستان ہے اور یہاں امن کے لیے پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات ہوئے جس کے بعد اب بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوا ہے تاہم ہم نے یہ نوٹس کیا ہے کہ قطر میں مذاکرات کے باوجود تشدد میں اضافہ ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لہٰذا ایسے وقت میں میرا افغانستان آنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم یقین دلا سکیں کہ جو ممکن ہوا پاکستان وہ کرے گا اور ہم اس تشدد کو کم کرنے اور جنگ بندی کی طرف لانے میں مدد کریں گے، ہم نے کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کمیٹیوں کے قیام کا مقصد ہمارے اور ہماری سیکیورٹی ایجنسیز کے درمیان روابط کو یقینی بنانا ہے، مزید یہ کہ آپ کو جب بھی یہ محسوس ہو کہ پاکستان، تشدد کو کم کرنے میں مدد کرسکتا ہے تو ہمیں بتائیں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جو بھی ہمارے دائرہ کار میں ہوا اور جو ہم کرسکے وہ کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف کا دورہ افغانستان: صدر اشرف غنی، امن کونسل کے سربراہ سے ملاقات

پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ افغانستان کے بعد پاکستان وہ ملک ہے جو وہاں امن کا سب سے زیادہ خواہاں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان سے جڑے پاکستان کے قبائلی علاقے سابق فاٹا، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں تباہ ہوا، نصف آبادی نے نقل مکانی کی، اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، لہٰذا امن سے ہم ان افراد کی مدد کرسکتے ہیں اور دونوں اطراف کے لوگوں کے درمیان تجارت کے مواقع بڑھا سکتے ہیں۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ اس پورے دورے کا مقصد اعتماد بحال کرنا، روابط بڑھانا اور اس بات کا یقین دلانا کہ ہم آپ کی توقعات سے بڑھ کر مدد کریں گے۔

قبل ازیں افغان صدر کا کہنا تھا کہ افغانستان کے دورے پر وزیراعظم کا شکرگزار ہوں جبکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون علاقائی ترقی کے لیے ناگریز ہے۔

مشترکہ ویژن

وزیر اعظم عمران خان کے دورے کے دوران دونوں ممالک نے 'دونوں ممالک اور خطے میں امن اور استحکام کے لیے پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ ویژن' کے عنوان سے دستاویز بھی جاری کی۔

دستاویز کے مطابق پاکستان اور افغانستان کی اعلیٰ قیادت نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ممالک کو اعتماد پر مبنی مستقبل کے تعلقات کی طرف دیکھنا چاہیے جس کا مقصد ان تعلقات سے ٹھوس نتائج حاصل کرنا ہو۔

پاکستان اور افغانستان کے حکام نے جس مشترکہ ویژن پر اتفاق کیا اس کے چند اہم نکات یہ ہیں:

  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان 'خصوصی تعلقات' ہونے چاہئیں جس کی بنیاد پیش گوئی کی قابلیت، شفافیت، ایک دوسرے کی خودمختاری کا باہمی اور مکمل احترام اور باہمی مفادات کو ریاستی سطح پر طے کردہ طریقہ کار کے ذریعے توسیع اور وسعت دینے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔
  • افغانستان کا دیگر ممالک کے ساتھ 'کثیرالجہتی' اور دوستانہ تعلقات دونوں ممالک کے لیے حقیقی موقع ہے کہ وہ تعلقات کو آگے بڑھائیں اور انہیں ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہ ہو۔
  • کسی بھی ملک کی سرزمین دوسرے ملک کے خلاف بدنیتی پر مبنی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوگی اور دونوں ممالک کو امن کے دشمنوں کی نشاندہی اور تدارک کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
  • علاقائی روابط کو وسعت دینی چاہیے جس میں تجارت، عوام، اشیا اور خدمات کی آزادانہ نقل و حمل، تجارتی اور کسٹم پوسٹس کا آغاز، ٹرانسپورٹ اور توانائی انفرااسٹرکچر کا قیام شامل ہو تاکہ علاقائی ترقی کے زیادہ سے زیادہ ثمرات حاصل ہوں۔
  • پاکستان سے محفوظ، مقررہ وقت پر اور پروقار انداز سے افغان مہاجرین کی واپسی سے دونوں ممالک کو آبادی کی ہجرت سے جڑے انسانی اور سماجی و اقتصادی چیلنجز سے نبردآزما ہونے میں مدد ملے گی۔

پاک ۔ افغان تعلقات کے اگلے مراحل

دفتر خارجہ سے جاری دستاویز میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے حکام نے اتفاق کیا ہے کہ مشترکہ ویژن تک پہنچنے کے لیے بروقت پیشرفت کے لیے قریبی روابط، باضابطہ مذاکرات اور مشکل اور جرات مندانہ فیصلے کرنے پر آمادگی کی ضرورت ہوگی۔

اس سلسلے میں قیادت نے تین مراحل میں اقدامات اٹھانے پر اتفاق کیا ہے۔

  • 15 دسمبر 2020 تک امن دشمنوں اور امن عمل کو ناکام کرنے والوں کی نشاندہی، تلاش اور تعاون کے لیے مشترکہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر کام کا آغاز کیا جائے گا۔
  • یکم جنوری 2021 تک مہاجرین کی واپسی اور اس مسئلے کے پائیدار حل کے لیے کونسے بہتر اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں، اس حوالے سے مشترکہ تجویز سامنے لائی جائے گی۔
  • یکم جنوری 2021 تک علاقائی روابط اس طریقے سے آگے بڑھانے کے لیے مشترکہ تجویز سامنے لائی جائے گی جس سے نہ صرف پاکستان اور افغانستان بلکہ خطے کو بھی فائدہ پہنچے۔

دونوں پڑوسیوں کے درمیان مستقبل میں تعاون کے حوالے سے دستاویز میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے رہنما باری باری ایک دوسرے کے دارالحکومتوں کے دورے کریں گے تاکہ تعلقات اور تعاون کو فروغ دینے کا سلسلہ جاری رکھا جاسکے، جس کا آغاز وزیر اعظم عمران خان کے دورہ افغانستان سے ہوا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی آئندہ سال کی پہلی سہ ماہی میں اسی طرح کے اسلام آباد کے دورے کی منصوبہ بندی کریں گے۔

بیان میں کہا گیا افغانستان، پاکستان کے ساتھ افغان امن عمل میں زیر بحث آنے والے اہم معاملات کا خلاصہ شیئر کرے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں