رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

ہم اس وقت ایک ایسی سرنگ میں ہیں جس کے اختتام پر روشنی نظر آنے لگی ہے۔ اس وقت تک ہمارے سامنے کورونا کی 3 ممکنہ ویکسین آچکی ہیں۔ یقیناً یہ سیاہ رات میں روشنی کی ایک کرن ہے۔

بدقسمتی سے ان ممکنہ ویکسین کے باوجود دنیا میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور مقامی اور عالمی سطح پر نئی پابندیاں عائد ہونے کا خطرہ بھی موجود ہے۔

ان پابندیوں میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے جاری کیے گئے نئے ویزا قوانین بھی ہیں۔ ان نئے قوانین کے مطابق پاکستان سمیت 11 ممالک کے شہری اب متحدہ عرب امارات کا سفری ویزا حاصل نہیں کرسکیں گے۔ تاہم اس پابندی کا اطلاق ان لوگوں پر نہیں ہوگا جن کے پاس پہلے سے ویزا موجود ہے۔

اگرچہ ان پابندیوں کی کوئی وجہ تو بیان نہیں کی گئی لیکن پابندی کا شکار ممالک میں کورونا کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان پابندیوں کی وجہ امارات میں کورونا وبا کو پھیلنے سے روکنا ہے۔

مزید پڑھیے: کیا ترقی پذیر ممالک کے لیے کورونا ویکسین کا حصول ممکن ہے؟

یہ عین ممکن ہے کہ سفری پابندیاں عائد کرنے والے دیگر ممالک کی طرح امارات بھی ویکسین کی دستیابی اور تقسیم ہونے کے بعد یہ پابندیاں ختم کردے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ایک بار جب کورونا وائرس پر قابو پالیا جائے گا تو دنیا بھر میں لوگ پہلے کی طرح ہی سفر کرسکیں گے۔ ہوائی اڈوں پر دوبارہ لوگوں کا رش نظر آئے گا اور طالب علم، ملازمت پیشہ افراد اور سیاح دوبارہ بیرونِ ملک سفر کرسکیں گے۔

لیکن یہ مکمل حقیقت نہیں ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ایک پینل کے مطابق وبائی امراض ہمارے مستقبل کا ایک مستقل جز بن جائیں گے۔ حیاتیاتی تنوع اور وبائی امراض کے حوالے سے حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ جنگلوں اور جانوروں کے رہنے کی جگہوں پر انسانی قبضے کا مطلب یہ ہے کہ ماضی کی نسبت اب انسان جانوروں سے لگنے والی بیماریوں کا زیادہ تیزی سے شکار ہوں گے۔

ایک اندازے کے مطابق جانوروں میں مختلف اقسام کے ساڑھے 8 لاکھ وائرس پائے جاتے ہیں جو آنے والے وقتوں میں جانوروں سے انسانوں کو لگنا شروع ہوجائیں گے۔ ایبولا، زیکا، فلو، ایڈز اور کورونا جیسی نئی بیماریاں بھی ان جرثوموں کی وجہ سے ہوتی ہیں جو جانوروں میں پائے جاتے ہیں۔ ممالیہ جانور خاص طور پر پرائیمیٹ اور روڈینت اور مرغابی جیسے پرندے یہ بیماریاں پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس بات کا مقصد یہ ہے کہ اب یہ سوال ختم ہوگیا کہ اگلی وبا ’اگر‘ آئی تو، بلکہ سوال یہ ہوگیا ہے کہ اگلی وبا ’کب‘ آئے گی۔ کچھ لوگوں نے تو اس سوال کا بھی جواب دے دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئندہ ہر 3 سال بعد دنیا کو ایک نئی وبا کا سامنا کرنا پڑے گا جو کسی جانور سے انسانوں کو لگے گی، یعنی بلآخر ان بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت نہ ہونے کی وجہ سے انسان ان سے ہلاک ہونے لگیں گے۔

اس وجہ سے دنیا بھر میں مزدوروں اور ملازمت پیشہ طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے سفر میں اور ویزوں کے حصول میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔ ماضی میں تو ویزا قوانین کا انحصار میزبان ملک کی ضروریات پر ہوتا تھا لیکن اب لگتا ہے کہ اس کی بنیاد صحت بن جائے گی۔ جو لوگ ملازمت کے لیے دوسرے ممالک کا سفر کریں گے انہیں وہیں رہنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے یا انہیں اس قسم کی دیگر پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ آئندہ دنوں میں ویزوں کے حصول کے لیے صحت کے سرٹیفیکیٹ بہت اہم ہوجائیں گے۔

مزید پڑھیے: پاکستان میں پھنسے بیرونِ ملک پاکستانیوں کو واپس بھیجنا زیادہ ضروری کیوں؟

چونکہ پاکستان سے بڑی تعداد میں مزدور بیرونِ ملک کام کے لیے جاتے ہیں، اس لیے پاکستان اور پاکستانیوں کو ابھی سے مستقبل کی پیش بندی کرلینی چاہیے۔ پاکستانی طلبہ اور نوجوانوں کی بڑی تعداد خلیجی ممالک، آسٹریلیا، برطانیہ، یا امریکا جیسے ملکوں میں نوکری ملنے کی خواہش میں رہتی ہے۔ اس صورت میں آسان آمد و رفت ہی ترسیلِ زر اور خاندانی مراسم قائم رکھنے میں ضروری ہے۔

لیکن آمد و رفت کے موجودہ نظام کو ایسے مستقبل سے خطرات لاحق ہیں کہ جس میں بیماریوں کا پھیلنا کئی ممالک کے لیے پریشانی کا باعث ہوگا۔ ممالک کی سرحدیں جو قومی خود مختاری کی علامت ہیں وہ ماسک لگانے اور لوگوں سے ملنے کے حوالے سے مختلف پابندیوں اور صحت کے اصولوں کی علامت بن جائیں گی۔

تاہم اس پوری صورتحال کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ دفتر سے دُور بیٹھ کر کام کرنے کے رجحان میں اضافے سے پاکستان جیسے ممالک کے نوجوانوں کو نئے مواقع میسر آئیں گے۔ چونکہ دفتر جیسی بند جگہوں پر بیماریاں پھیلنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اس کی وجہ سے اب کام گھروں سے بھی ہورہا ہے۔ یوں ملازمت کی مارکیٹ وسیع ہوگئی ہے اور دیگر ممالک میں رہنے والے باصلاحیت افراد بھی ملازمت پر رکھے جاسکتے ہیں۔

مغرب میں غیر مستقل ملازمت (Gig Work) پہلے سے ہی بہت مقبول ہے اور اس کی مقبولیت میں اب مزید اضافہ ہوجائے گا۔ جو پاکستانی اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں انہیں سیکھنا ہوگا کہ ان مغربی کمپنیوں کے سامنے اپنی صلاحیتوں کی کس طرح تشہیر کرنی ہے، جن کو مشاورت اور دیگر غیر مستقل خدمات کے لیے افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ مستقل ملازمت کے برعکس اس طرز کی ملازمت میں تعلیمی اہلیت اور دیگر پابندیاں نسبتاً کم ہوتی ہیں۔

پاکستان اور پاکستانیوں کو مستقبل کے رجحانات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ان شعبوں کو تلاش کیا جائے جو غیر مستقل ملازمت پر انحصار کرتے ہیں اور پھر ان میں مواقعوں کے حصول کی کوشش کی جائے۔

پاکستان کا دفترِ خارجہ اس معاملے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ہمارا دفترِ خارجہ، ملازمت پیشہ افراد کے متلاشی ممالک کے سامنے پاکستانیوں کی سفارش کرسکتا ہے تاکہ وہ غیر مستقل ملازمتوں کے لیے پاکستانیوں پر اپنے دروازے کھولیں۔ اس عمل سے سفری رکاوٹوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے ازالے میں مدد ملے گی۔

مزید پڑھیے: پاکستان کے لیے بُری خبر: مزید عالمی وبائیں پھن پھیلائے کھڑی ہیں

پاکستانی حکومت کا کافی حد تک انحصار ترسیلاتِ زر پر ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستانی مزدوروں کو ویزے کے حصول میں صحت کے حوالے سے درپیش مشکلات کے حل کے لیے اقدامات کرے۔

اس کا ایک طریقہ تو یہ ہوسکتا ہے کہ حکومت عالمی معیار کو مدِنظر ایسی جگہ تیار کرے جہاں مزدوروں کو آئسولیشن میں رکھا جائے، جس کے بعد وہ خصوصی فلائٹ کے ذریعے ان ممالک کا سفر کرسکیں جہاں صحت سے متعلق سفری پابندیاں عائد ہیں۔

اگر کورونا کی وبا نے ہمیں کچھ سکھایا ہے تو وہ یہ کہ دنیا پلک جھپکنے میں بدل سکتی ہے اور ہماری چھپی ہوئی کمزوریاں عیاں ہوسکتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان چیزوں سے سبق سیکھا جائے اور مستقبل کی پیش بندی کی جائے۔


یہ مضمون 25 نومبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں