آرٹس کونسل کراچی میں 13ویں عالمی اردو کانفرنس کا آغاز

چار روزہ کانفرنس کے پہلے روز صوبائی وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے— فوٹو: وائٹ اسٹار
چار روزہ کانفرنس کے پہلے روز صوبائی وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے— فوٹو: وائٹ اسٹار

آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی میں چار روز 13ویں عالمی اردو کانفرنس کا آغاز ہوگیا جو کورونا وائرس کے تباہ کن اثرات سے بچاؤ کے لیے حکومت کی فراہم کردہ ہدایات کے باعث غیر معمولی ہائبرڈ انداز میں منعقد ہورہی ہے۔

4 روزہ کانفرنس کے پہلے روز صوبائی وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ جو بطور مہمان خصوصی شریک تھے، انہوں نے کہا کہ وہ وزیر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مصنف کی حیثیت سے اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔

سید سردار علی شاہ نے کہا کہ کانفرنس لوگوں کو 'جوڑتی ہے'، انہوں نے علاقائی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کی اہمیت کے بارے میں بھی بات کی۔

ممتاز شاعر زہرہ نگاہ نے تقریب کی صدارت کی، انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا مہلک ہے اور ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ ہم سلامت رہیں۔

مزید پڑھیں: 13ویں عالمی اردو کانفرنس 3 دسمبر سے شروع ہوگی

انہوں نے کچھ مختصر نظمیں سنائیں جو انہوں نے اس دوران لکھیں۔

آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ نے افتتاحی خطاب کیا، انہوں نے دیگر چیزوں کے علاوہ آرٹس کونسل میں بننے والی لائبریری کے بارے میں بات کی جسے جوش ملیح آبادی کے نام سے منسوب کیا جائے گا۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

3 دسمبر کو ہونے والی اس افتتاحی تقریب کا انعقاد ڈاکٹر ہما میر نے کیا۔

عالمی اردو کانفرنس کے ایک سیشن میں مصنف اور نقاد ڈاکٹر آصف فاروقی کو خراج تحسین پیش کیا گیا جو رواں برس یکم جون کو انتقال کرگئے تھے۔

اس موقع پر تینوں اہم تقاریر کونسل کے مرکزی آڈیٹوریم میں موجود شرکا اور بذریعہ ویڈیو لنک گھر سے موجود شائقین کے سامنے پیش کی گئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عالمی اردو کانفرنس میں پہلی تقریر بھارت سے تعلق رکھنے والے نامور ناقد ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے کی۔

انہوں نے کہا کہ ہندی لفظ ساہتیا جو ادب کے لیے استعمال ہوتا ہے، ایک مرکب لفظ ہے جس کے معنی ہیں معاشرہ اور اس کی ترقی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادب کا معاشرے سے گہرا تعلق ہے۔

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اپنی تقریر کا آغاز اقبال اشہر کی نظم کے شعر سے کیا،

اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی میں میرؔ کی ہم راز ہوں غالبؔ کی سہیلی

انہوں نے کہا کہ اردو ان کے لیے ایک معما ہے، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے شرکا کو بتایا کہ وہ 1930 میں بلوچستان میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی مادری زبان سرائیکی ہے۔

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے بتایا کہ گزشتہ چند دہائیوں میں بھارت میں اردو زبان کو دبانے کی کوشش کی گئی لیکن بے کار گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خطے میں 300 زبانیں بولی جاتی ہیں اور شمال سے لے کر دکن تک اور دکن سے میسور تک اردو بولی جاتی ہے۔

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے کہا کہ بولی وڈ اور ٹی وی ڈراموں میں استعمال ہونے والی 90 فیصد زبان اردو ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ریختہ ویب سائٹ (جہاں اردو ادب سے متعلق کام موجود ہے) اس کے 30 سے 35 کروڑ سبسکرائبرز ہیں، لہذا ان کے لیے اردو ایک پہیلی جیسی ہے۔

ان کے بعد پروفیسر شمیم حنفی نے بھارت سے آن لائن خطاب کیا، انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس نے پوری دنیا کو متاثر کردیا ہے۔

پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کہ ادب، ثقافت اور فن کی عمر نہیں ہوتی، ماضی کو ایک ڈبے میں بند رکھنا ناانصافی ہوگی کیونکہ اس سے تخلیقی پیداوار کی وسعت محدود ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ادبی جستجو کی تقسیم ظلم ہے، اگر تخلیقی لوگ زمانے کو نظر انداز کرتے ہیں تو وہ اس سے بڑی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے۔

پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کہ اس وقت کے ادب کو قارئین کے لیے مزید قابل فہم بنانے کی ضرورت ہے، ہر خیال اور اظہار کامناسب وقت ہوتا ہے اور جب وہ افضل سید، عذرا عباس، یاسمین حمید اور ذکیہ مشہدی کی تخلیقات پڑھتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ ان کا وقت آگیا ہے۔

شاعرہ یاسمین حمید جو لاہور سے آن لائن تھیں انہوں نے ایک مقالہ پڑھا اور کہا کہ انہوں نے عام قارئین کو ذہن میں رکھتے ہوئے اسے لکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بارھویں عالمی اردو کانفرنس: دوسرے روز زبان و ادب پر سیشن

انہوں نے کہا کہ ہر ادبی دور کو اس کی مرکزی ادبی رجحان سے پہچانا جاتا ہے، اس کی کوئی مقررہ مدت نہیں ہے، 1920 سے 2020 تک، یہ کوئی ایک دور نہیں ہے۔ اسے کچھ ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے لیکن واضح خاکے کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔

یاسمین حمید نے کہا کہ ہر دور میں بعض امور پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے، عام آدمی اکثر یہ سوال پوچھتا ہے کہ 'معاشرے میں ادب کی کیا اہمیت ہے؟'۔

یاسمین حمید نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیےکچھ سوالات پر مبنی ایک سوالنامہ کسی 3 افراد کو بھیجا اور انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ ادب پڑھتے ہیں یا نہیں۔

پہلا سوال تھا: ادب کیا ہے؟ وہ جوابات جو انہوں نے شامل کیے وہ یہ تھے کہ ‘ادب زندگی کی عکاسی کرتا ہے’ اور ‘ہمارے جذبات اور رشتوں کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے‘ وغیرہ۔

دوسرا سوال تھا کہ ادب سے آپ کیا توقع کرتے ہیں؟ جوابات میں یہ شامل تھا کہ ‘معاشرے کی ترقی میں اسے ایک اہم کردار ادا کرنا چاہیے’ اور ‘بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنا اہم ہے‘ وغیرہ۔

تیسرا سوال تھا کیا ہمارا ادب معاشرے کو متاثر کرتا ہے؟ اور جوابات تھے کہ ‘آج جس قسم کا ادب تخلیق کیا جارہا ہے وہ معاشرے کے زوال کا ذمہ دار ہے’ اور 'یہ مثبت طریقے سے اثر انداز نہیں ہو رہا ہے' وغیرہ۔

یاسمین حمید نے نشاندہی کہ کسی بھی جواب میں 'تفریح' کے عنصر کا ذکر شامل نہیں، اس کا تعلق صرف اصلاح کے ساتھ ہے۔

انہوں نے کہا ک جن تمام چیزوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہ محسوس کرتی ہیں کہ فرد کی آزادی سب سے اہم ہے، جدید انسان انفرادی فکر کی طرف زیادہ مائل ہے نہ کہ اجتماعی۔

یاسمین حمید نے کہا کہ س کا مطلب یہ نہیں کہ کسی نظریے سے انکار کیا جائے بلکہ اس کا مطلب اس کی بہتات ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اجتماعی سطح پر نظریات کی بہتات سمجھنا آسان ہے لیکن فرد کی سطح پر نہیں۔

خیال رہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے رواں برس عالمی اردو کانفرنس آن لائن منعقد ہو رہی ہے اور اس کے سیشنز کونسل کے یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج پر دستیاب ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں