امید ہے فرانس جلد میکرون سے چھٹکارا حاصل کر لے گا، طیب اردوان

اپ ڈیٹ 05 دسمبر 2020
ترک صدر رجب طیب اردوان نے امید ظاہر کی کہ فرانس جلد ایمینوئل میکرون سے چھٹکارا حاصل کر لے گا— فائل فوٹو: رائٹرز
ترک صدر رجب طیب اردوان نے امید ظاہر کی کہ فرانس جلد ایمینوئل میکرون سے چھٹکارا حاصل کر لے گا— فائل فوٹو: رائٹرز

استنبول: ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ فرانس جلد از جلد ایمانوئل میکرون سے چھٹکارا حاصل کر لے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ترک صدر ان کے فرانسیسی ہم منصب ایممینوئیل میکرون کے درمیان ایک عرصے سے لفظی جنگ کا سلسلہ جاری ہے اور ترکی کا بحیرہ رقم میں ناگورنو کاراباخ کے خطے پر تک فرانس اور اس کے یورپی یونین کے شراکت داروں کے ساتھ مسلسل تنازع جاری ہے۔

مزید پڑھیں: رجب طیب اردوان سب سے مقبول مسلمان حکمران

حالیہ مہینوں میں یہ دونوں ملکوں کے دربراہان کے درمیان بیان بازی نئی سطحوں پر پہنچ چکی ہے کیونکہ فرانس نے اپنی سرزمین پر متعدد حملوں کے بعد شدت پسندی کے خلاف کریک ڈاؤن میں اضافہ کیا ہے۔

استنوبل میں نماز جمعہ کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے میکرون فرانس کے لیے پریشانی کا باعث ہے، میکرون کے ساتھ فرانس ایک بہت ہی خطرناک دور سے گزر رہا ہے، مجھے امید ہے کہ فرانس جلد سے جلد میکرون کی پریشانی سے چھٹکارا حاصل کر لے گا۔

انہوں نے کہا کہ فرانسیسیوں کو اپنے قائد کو معزول کرنا چاہیے اور 2018 میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بصورت دیگر وہ پیلے رنگ کی واسکٹ کی تحریک سے جان چھڑانے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔

اردوان نے وضاحت کے بغیر کہا بعد میں پیلے رنگ کی واسکٹ سرخ رنگ کی واسکٹ میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ترک صدر کا فرانسیسی صدر کو 'دماغی معائنہ' کرانے کی تجویز

ترک رہنما بار بار مشورہ دیتے رہے ہیں کہ میکرون کی ذہنی جانچ پڑتال کروائی جائے اور ترک عوام پر زور دیا کہ وہ فرانسیسی لیبل کی حامل مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔

آذربایجان کا ایک علاقہ نسلی آرمینیائی آبادی والے ناگورنو-کاراباخ کے حوالے سے ترکی اور فرانس کے درمیان بھی اختلافات ہیں جو 1990 کی دہائی میں سوویت جنگ کے بعد باکو کے کنٹرول سے الگ ہوگئے تھے۔

ستمبر میں اس سلسلے میں تازہ لڑائی شروع ہوگئی تھی جس میں کئی ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد روس ے مداخلت کرتے ہوئے جنگ بندی کرائی تھی۔

ترکی آذربائیجان کا مضبوط اتحادی ہے۔

روس اور امریکا کے ہمراہ فرانس ایک منسک گروپ کا مشترکہ صدر ہے جس کی وجہ سے کئی دہائیوں سے تنازع کے حل کے لیے بات چیت کی جا رہی ہے لیکن وہ دیرپا معاہدے کی تکمیل میں ناکام رہے ہیں۔

پچھلے مہینے فرانسیسی سینیٹ نے ایک غیر پابند قرارداد منظور کی تھی جس میں فرانس سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ نگورنو-کاراباخ کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرے۔

مزید پڑھیں: فرانس: مسلمان بچوں کو ’شناختی نمبر‘ الاٹ کرنے کے متنازع اقدام پر غم و غصے کی نئی لہر

اردوان نے اس قرارداد پر الزام عائد کیا کہ کیوں؟ آپ ثالث ہیں لیکن دوسری طرف آپ نے یک ایسے خطے کے بارے میں اپنی پارلیمنٹ میں ایک قرار داد منظور کر لی ہے جس پر آپ کو ثالث سمجھا جاتا ہے۔

انہوں نے آذربائیجان کے صدر الہام علیف کے تبصرے بھی دہرائے کہ اگر فرانس کاراباخ کے آرمینیوں کے لیے ریاست قائم کرنا چاہتا ہے تو وہ بحیرہ روم کے بندرگاہ کے شہر مارسیلی کو آرمینیا کو دے دے۔

اردگان نے کہا کہ میں بھی یہی مشورہ دے رہا ہوں کہ اگر انہیں اتنا ہی شوق ہے تو انہیں مارسیلی آرمینیوں کو دینا چاہیے۔

ستمبر میں بحیرہ روم کے وسطی تناؤ کے بارے میں میکرون کے تبصرے پر ترکی نے شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔

میکرون نے اس بحران کے حوالے سے اردوان کی سوچ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کے عوام عظیم لوگ ہیں، وہ کسی اور چیز کے مستحق ہیں۔

فرانس نے توانائی سے مالا مال پانیوں کے سلسلے میں یونانی دعوؤں کی حمایت کی تھی جہاں یونان نے ترکی کو سزا دینے کے لیے یورپی یونین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ انقرہ پر پابندیاں عائد کرے۔

یورپی یونین کے اراکین دس دسمبر کو ہونے والے ایک سربراہی اجلاس میں فیصلہ کریں گے کہ آیا ترکی کے خلاف پابندیوں کا اطلاق کا عمل شروع کرنا ہے یا نہیں، اگرچہ بہت سی ریاستیں اس بات پر قائل نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون انتہا پسندی کو ہوا دے رہے ہیں، ایران

میکرون نے اکتوبر میں الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے شام، لیبیا اور بحیرہ روم میں ترکی کے طرز عمل کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپنے نیٹو کے اتحادیوں کے ساتھ ترکی کا سلوک انتہائی جنگجو نوعیت کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فرانس کی خواہش تھی کہ چیزیں "پرسکون انداز میں ہوجائیں لیکن اس کے ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ترک صدر فرانس کا احترام کریں، یوروپی یونین کا احترام کریں ، اس کی اقدار کا احترام کریں، جھوٹ نہ بولیں اور گستاخی نہ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں