'اپوزیشن کے استعفوں کے باوجود سینیٹ انتخابات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا'

اپ ڈیٹ 10 دسمبر 2020
ماہرین کا کہنا ہے کہ استعفوں کے باوجود الیکٹورل کالج پر کوئی فرق نہیں پڑے گا— فوٹو: وائٹ اسٹار/ تنویر شہزاد
ماہرین کا کہنا ہے کہ استعفوں کے باوجود الیکٹورل کالج پر کوئی فرق نہیں پڑے گا— فوٹو: وائٹ اسٹار/ تنویر شہزاد

اسلام آباد: ملک میں قانونی اور آئینی ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ اسمبلیوں سے اپنے ممبران کے منصوبہ بندی کے تحت بڑے پیمانے پر استعفوں کے باوجود حزب اختلاف مارچ 2021 میں ایوان بالا سینیٹ کے انتخابات میں حکمران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو اکثریت حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی، کیوں کہ قانون اور آئین ووٹنگ کے لیے ایوان میں موجود قانون سازوں کی تعداد کی کسی خاص ضرورت کے حوالے سے خاموش ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے کنوینر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ سینیٹ انتخابات اگر موجودہ قانون سازوں کے ذریعے کرائے جاتے ہیں تو یہ 'جعلی' ہوں گے اور ان کے اس بیان پر جب ڈان نے تجربہ کار سیاستدان اور آئینی ماہر ایس ایم ظفر سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی عدم موجودگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔

مزید پڑھیں: 16 ستمبر کو اپوزیشن استعفے دے دیتی تو عام انتخابات ہو سکتے تھے، شیخ رشید

بدھ کے روز اپنی رہائش گاہ پر پی ڈی ایم رہنماؤں کے 'غیر رسمی' اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ انتخابی کالج توڑنا بھی جمہوری عمل کا ایک حصہ ہے، انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں آئینی ماہرین سے مشورہ کر رہی ہیں کہ اگر و اسمبلیوں سے حزب اختلاف کے قانون سازوں کے بڑے پیمانے پر استعفوں کے بعد 'نامکمل' الیکٹورل کالج کے ذریعے سینیٹ انتخابات کرائے جاتے ہیں کہ تو ان کی قانونی حیثیت کیا ہو گی۔

قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے مجموعی ایک ہزار 90 قانون سازوں میں سے 494 کا تعلق پی ڈی ایم کی جماعتوں سے ہے جس میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر پی ڈی ایم کے منصوبے کے تحت تمام اسمبلیوں میں اپوزیشن کے تمام اراکین استعفے پیش کرتے ہیں تو سینیٹ اپنے انتخابی کالج کا 45 فیصد گنوا دے گا، اس سے انکشاف ہوا ہے کہ سندھ کے علاوہ سینیٹ کا 50 فیصد سے زیادہ الیکٹورل کالج موجود ہوگا۔

ایس ایم ظفر نے کہا کہ آئین کے تحت سینیٹ انتخابات اس کے آدھے اراکین کی ریٹائرمنٹ سے قبل ہونے چاہئیں اور سینیٹ انتخابات میں کسی بھی وجہ سے صوبائی اسمبلی اراکین کی عدم موجودگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

سابق اٹارنی جنرل اشتر علی اوصاف نے بھی کہا کہ آئندہ سال مارچ میں مجموعی 104 اراکین میں سے آدھے یعنی 54 اراکین کی 6 سالہ مدت کی تکمیل کے بعد ریٹائرمنٹ کے نتیجے میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں حزب اختلاف کے اراکین کے استعفوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن استعفے دے گی تو نئے انتخابات کرائیں گے، شبلی فراز

سینیٹ کے قوانین اور انتخابی طریقہ کار کے حوالے سے سابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ متعلقہ صوبائی اسمبلیوں سے تعلق رکھنے والے اراکین سینیٹرز کے انتخاب کے لیے اپنا ووٹ ڈال سکتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ اپوزیشن اراکین کے استعفوں کے باوجود انتخابی کالج برقرار رہے گا۔

اشتر اوصاف نے کہا کہ اسمبلیوں کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے انعقاد کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت کی حد 90 دن ہے لیکن کسی بھی بحران سے بچنے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان (خالی نشستوں) پر جلد انتخابات کرا سکتا ہے، اس صورتحال میں ان کا خیال ہے کہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے استعفیٰ دینے سے اپوزیشن کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اس طرح کا اقدام نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ تب ہی چلتا ہے جب حکومت کی اتحادی جماعتوں کے قانون ساز اپوزیشن کے ساتھ استعفے دے دیتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے ایک وکیل کاشف علی ملک نے کہا کہ آئین میں ایسی کوئی شق نہیں ہے جس میں قانون سازوں کی کم از کم تعداد مقرر ہو اور آئین اور قانون اس معاملے پر خاموش ہیں۔

اگرچہ ایسی صورتحال میں عدالت قانون کی ترجمانی کر سکتی ہے لیکن عدلیہ نے زیادہ تر سیاسی معاملات میں مداخلت پر معذوری ظاہر کی ہے البتہ ملک میں بحران جیسے حالات کو روکنے کے لیے عدالتیں معاملہ اٹھا سکتی ہیں، انہوں نے کہا لہذا حزب اختلاف کو کسی سازگار عدالتی فیصلے کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن اگر استعفے دے گی تو خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کرادوں گا، وزیر اعظم

پیپلز پارٹی کے ایک سینئر رہنما اور آئینی ماہر نے جب اس سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی قانونی ماہرین کی رائے کی تائید کی لیکن سوال کیا کہ ایسے سینیٹ کی اخلاقی ساکھ کیا ہو گی جس کے اراکین کو قانون ساز اپوزیشن کے بغیر منتخب کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں