کسانوں کے احتجاج میں شدت: بھارتی حکومت قوانین میں مزید تبدیلیوں پر غور کیلئے تیار

اپ ڈیٹ 11 دسمبر 2020
دو روز قبل کسانوں کے احتجاج میں شدت آگئی تھی اور کسانوں نے ملک بھر میں ریلوے ٹریکس اور ہائے ویز بند کردی تھیں — فائل فوٹو / اے ایف پی
دو روز قبل کسانوں کے احتجاج میں شدت آگئی تھی اور کسانوں نے ملک بھر میں ریلوے ٹریکس اور ہائے ویز بند کردی تھیں — فائل فوٹو / اے ایف پی

بھارت کے وزیر زراعت کا کہنا ہے کہ حکومت تقسیم کا باعث بننے والی اصلاحات میں مزید تبدیلیوں پر غور کے لیے تیار ہے جس کے باعث بھارتی کسان حالیہ سالوں کا سب سے بڑا احتجاج کر رہے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق نریندرا سنگھ تومر نے نئے زرعی قوانین کے خلاف جاری احتجاج کے خاتمے کے لیے کسان رہنماؤں پر حکومت سے ایک بار پھر مذاکرات کرنے پر زور دیا۔

بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ نئے قوانین فصلوں کی خریداری کے قدیم طریقہ کار کو درست کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں جن سے کسانوں کو ان کی فصلوں کی فروخت کے لیے مزید آپشنز ملیں گے۔

نومبر کے آخر سے نئی دہلی کی سڑکوں پر بڑے پیمانے پر احتجاج ہورہا ہے اور حکومت سے یہ کہتے ہوئے قوانین منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اس سے بھارت کی ریگولیٹڈ مارکیٹیں بالآخر ختم ہوجائیں گی اور کسان نجی خریداروں کے رحم و کرم پر آجائیں گے۔

دو روز قبل کسانوں کے احتجاج میں شدت آگئی تھی اور کسانوں نے ملک بھر میں ریلوے ٹریکس اور ہائے ویز بند کردی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں کسانوں کے احتجاج میں شدت، ملک بھر میں ریلوے ٹریکس اور ہائی ویز بند

نریندرا سنگھ تومر نے صحافیوں کو بتایا کہ 'حکومت، کسانوں کی طرف سے اٹھائے گئے کسی بھی اضافی اعتراض پر غور کے لیے تیار ہے'۔

انہوں نے کہا کہ اس قانون سازی کا حتمی مقصد کسانوں کی آمدنی بڑھانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ان قوانین کے ذریعے حکومت زرعی شعبے میں نجی سرمایہ کاری کے ذریعے پابندیوں میں نرمی لائی ہے'۔

بھارتی وزیر زراعت نے کہا کہ فصلوں کی خریداری کا موجودہ نظام، جس میں ریاست نے قیمتیں طے کی ہیں، موجود رہے گا۔

واضح رہے کہ بدھ کو کسانوں نے حکومت سے پہلے کیے گئے سمجھوتوں کو مسترد کردیا تھا، جس میں یہ وعدہ بھی شامل تھا کہ نجی مارکیٹ کی جگہوں پر ریاستی حکومتیں اسی شرح سے ٹیکس عائد کریں گی جس طرح ریاستی مارکیٹوں میں عائد ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت: زرعی اصلاحات پر کسانوں اور پولیس کے درمیان تصادم

نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے ستمبر میں پارلیمنٹ میں معمولی بحث کے بعد منظور کیے گئے ان قوانین نے زرعی ریاستوں پنجاب اور ہریانہ کے سیاسی طور پر بااثر کسان گروپوں کو خاص طور پر مشتعل کردیا تھا۔

ان قوانین سے چھوٹے کاشتکاروں کو خدشہ ہے کہ جب بڑے کارپوریٹ کھلاڑی مارکیٹ میں داخل ہوں گے تو انہیں قیمتوں کے حوالے سے سرکاری ضمانتیں نہیں ملیں گی۔

کسانوں کے احتجاج میں شریک اپوزیشن رہنما یوگیندرا یادیو نے 'مِرر ناؤ ٹی وی' کو بتایا کہ 'نئے قوانین میں فصلوں کی خریداری کے لیے کم از کم سپورٹ قیمت پر قانونی یقین دہانی فراہم کرنے سے متعلق کوئی ذکر نہیں ہے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں