جو بائیڈن کی صدارتی جیت کی تصدیق کے لیے امریکی الیکٹورل کالج آج ووٹ ڈالے گا

اپ ڈیٹ 14 دسمبر 2020
امریکا کا صدارتی امیدوار قومی مقبول ووٹ کی اکثریت حاصل کرکے نہیں بلکہ الیکٹورل کالج سسٹم کے ذریعہ صدر بنتا ہے۔  - فائل فوٹو:رائٹرز
امریکا کا صدارتی امیدوار قومی مقبول ووٹ کی اکثریت حاصل کرکے نہیں بلکہ الیکٹورل کالج سسٹم کے ذریعہ صدر بنتا ہے۔ - فائل فوٹو:رائٹرز

رائے دہندگان امریکا کے دارالحکومتوں میں آج جو بائیڈن کو اگلا امریکی صدر منتخب کرنے کے لیے باضابطہ ووٹ دیں گے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ہر ریاست کی ووٹنگ امریکا کی روایت میں سے ہے جو رواں سال قوم کے جمہوری عمل پر ٹرمپ کے غیرمعمولی حملے کی روشنی میں غیر معمولی اہمیت حاصل کرگئی ہے۔

بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی کے جھوٹے دعوؤں کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے ریاستی عہدیداروں پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ انتخابی نتائج کو ختم کریں اور انہیں فاتح قرار دیں۔

امریکا میں ایک اُمیدوار قومی مقبول ووٹ کی اکثریت حاصل کرکے نہیں بلکہ الیکٹورل کالج سسٹم کے ذریعے صدر بنتا ہے جہاں 50 ریاستوں اور ڈسٹرکٹ کولمبیا کو ان کی آبادی کی بنیاد پر الیکٹورل ووٹ فراہم کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا: 'جو بائیڈن کو پیشہ ورانہ طریقے سے اقتدار منتقل کریں گے'

انتخابی نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈیموکریٹک سابق نائب صدر جو بائیڈن نے دستیاب 538 انتخابی ووٹوں میں سے 306 میں کامیابی حاصل کی۔

یہ ضروری 270 ووٹوں سے زیادہ ہے جبکہ ریپبلکن اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے 232 ووٹ حاصل کیے ہیں۔

لینسنگ، مشی گن ہیرس برگ، پنسلوانیا، اٹلانٹا، جارجیا، میں پارٹی رہنما باضابطہ طور پر ووٹ ڈالنے کے لیے اکٹھے ہوں گے۔

تاہم بعض اوقات مٹھی بھر لوگ اپنی ریاست کے مقبول ووٹ کے فاتح کے علاوہ کسی اور کو ووٹ دیتے ہیں تاہم اکثریت اپنی ریاست کے نتائج کے مطابق ہی ووٹ ڈالتے ہیں۔

عہدیداروں کا کہنا تھا کہ پیر کے روز کچھ مختلف ہونے کی توقع نہیں ہے۔

ٹرمپ نے ریپبلکن ریاستی قانون سازوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ووٹرز کی خواہشات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے الیکٹرز تعینات کریں تاہم بڑے پیمانے پر ریاستی قانون سازوں نے اس خیال کو مسترد کردیا ہے۔

پیر کو ڈالے گئے ووٹوں کو سرکاری طور پر 6 جنوری کو گنتی کے لیے کانگریس کو بھیجا جائے گا جو امریکا کے پیچیدہ انتخابی عمل کا آخری مرحلہ ہے۔

ٹرمپ نے گزشتہ ماہ کے آخر میں کہا تھا کہ اگر الیکٹورل کالج نے جو بائیڈن کو ووٹ دیا تو وہ وائٹ ہاؤس چھوڑ دیں گے تاہم اس کے بعد انہوں نے اپنی شکست کو ختم کرنے کے لیے اپنی بے مثال مہم پر زور دیا ہے اور کامیابی نہ ملنے پر ریاست کے ووٹوں کی گنتی کے عمل کے خلاف متعدد مقدمات دائر کیے ہیں۔

امریکی سپریم کورٹ کورٹ نے ٹیکساس کی جانب سے دائر مقدمے کو مسترد کردیا جس میں چار ریاستوں کے نتائج کو مسترد کرنے کی کوشش کی گئی تھی جہاں جو بائیڈن کامیاب ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: جو بائیڈن کا انتخاب اور پاکستانی معیشت کو درپیش ممکنہ خطرات

الیکٹورل کالج کا ووٹ مکمل ہونے کے بعد ٹرمپ کا واحد ہربہ یہ ہوگا کہ 6 جنوری کو کانگریس کو گنتی کی تصدیق کرنے سے روکا جائے۔

وفاقی قانون انفرادی قانون سازوں کو ریاستوں کے انتخابی ووٹوں کو چیلنج کرنے کی اجازت دیتا ہے جس سے ایوان نمائندگان اور سینیٹ دونوں میں ووٹنگ پر اعتراضات پر بحث کا موقع ملتا ہے کہ ان کو برقرار رکھنا ہے یا نہیں۔

ریپبلکن قانون ساز مو بروکس نے عزم کا اظہار کیا ہے کہ جب کانگریس اگلے مہینے ووٹ کا جائزہ لے گی تو وہ اسے چیلنج کریں گے تاہم یہ واضح ہے کہ دونوں ایوان ان کی اس کوشش کو مسترد کردے گا۔

ڈیموکریٹس ایوان پر قابض ہیں جبکہ سینیٹ میں متعدد اعتدال پسند ری پبلکن پہلے ہی جو بائیڈن کی فتح کو عوامی طور پر قبول کرچکے ہیں۔

'بارودی سرنگیں'

2016 میں ٹرمپ نے ڈیموکریٹ ہلیری کلنٹن سے تقریبا 30 لاکھ مقبول ووٹ کھونے کے باوجود الیکٹورل کالج جیت لیا تھا۔

مزید پڑھیں: نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کو عمران خان سمیت عالمی رہنماؤں کی مبارکباد

باضابطہ ووٹوں نے اس وقت زیادہ توجہ حاصل کی جب چند ڈیموکریٹک رہنماؤں نے انتخابی ورکرز کو ٹرمپ کے خلاف ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔

آخر میں سات ووٹرز کی صفیں ٹوٹ گئی تھیں جو ایک غیر معمولی تعداد ہے تاہم نتائج کو روکنے کے لیے یہ بھی بہت کم ہے۔

اوہائیو ناردرن یونیورسٹی کے پروفیسر رابرٹ الیگزینڈر کا کہنا تھا کہ اگر ووٹنگ کا عمل بہتر طریقے سے بھی مکمل ہوگیا تب بھی ٹرمپ کی کوشش جیسے ریاستی الیکٹورز کے تقرر کرنے کا کہنا، نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'الیکٹورل کالج میں بہت ساری بارودی سرنگیں ہیں اور اس انتخاب نے واقعتاً ان میں سے بہت ساری چیزوں کا انکشاف کیا ہے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں