'حکومت کے پاس تو اتنے پیسے نہیں کہ سارے پاکستان میں ہسپتال بنائے'

اپ ڈیٹ 16 دسمبر 2020
وزیراعظم عمران خان— فوٹو: ڈان نیوز
وزیراعظم عمران خان— فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت کے پاس تو پیسے نہیں کہ سارے پاکستان میں ہسپتال بناتی پھرے نہ ہی وسائل ہیں، بدقسمتی سے ہمارے پاس قرضوں کا حجم اتنا زیادہ ہے کہ ٹیکس کی مد میں ہونے والی آمدن کا نصف حصہ تو قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔

پشاور میں ادارہ برائے امراض قلب کے افتتاح کے موقع پر ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے پاس اتنے فنڈز نہیں کہ 22 کروڑ افراد کو ہیلتھ کوریج دیں لیکن ہیلتھ کارڈ کی وجہ سے نجی سیکٹر آئے گا اور وہ آگے آرہا ہے ہسپتال بنانے کے لیے، کیوں کہ جس کے پاس ہیلتھ کارڈ ہوگا وہ سرکاری یا نجی کسی بھی ہسپتال سے اپنا علاج کرواسکے گا۔

انہوں نے بتایا کہ اس کا مطلب کہ وہ علاقے جہاں نجی شعبہ ہسپتال بنانے کے لیے نہیں جاتا تھا کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ لوگوں کے پاس وسائل ہی نہیں، لیکن اب نجی شعبہ ان غریب علاقوں میں ہسپتال قائم کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: صحت کارڈ کے اجرا سے ہر خاندان کو 10 لاکھ روپے تک مفت علاج کی سہولت حاصل ہوگی، وزیراعظم

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جن دو صوبوں میں ہے ادھر میں نے ہدایت دے رکھی ہے کہ نجی شعبے کو ہسپتالوں کے لیے سستے داموں زمین فراہم کی جائے اور پنجاب میں تو اوقاف کی زمینوں پر سستے داموں ہسپتالوں کی تعمیر کی ہدایت کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ زمین سستی کرنے کے ساتھ ہسپتالوں میں استعمال ہونے والے وہ تمام آلات جو ملک کے اندر نہیں بنتے انہیں ڈیوٹی فری کردیا گیا ہے اور پھر ہیلتھ کارڈ کی وجہ سے لوگوں کے پاس خرچ کرنے کی صلاحیت آجائے گی تو آپ دیکھیں گے کہ پورے پاکستان میں انقلاب آجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری عوام کی صحت کا دھیان رکھنا ہے تو یہ بہت بڑا اقدام ہے، ساتھ ہی انہوں نے پشاور کارڈیک انسٹیٹیوٹ کا معیار برقرار رکھنے کی خصوصی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری ہسپتالوں کا معیار آہستہ آہستہ گرتا چلا جاتا ہے جسے برقرار رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شوکت خانم آج سے 25 سال پہلے تعمیر ہوا تھا لیکن اس کے معیار میں کمی نہیں آئی بلکہ صرف اضافہ ہوا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ سرکاری ہسپتال معیاری ہوں تا کہ وہ نجی ہسپتالوں کا مقابلہ کرسکیں۔

مزید پڑھیں: ہمارا نظام صحت کورونا وبا کے پھیلاؤ کا متحمل نہیں ہو سکتا، وزیراعظم

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا میں سب سے زیادہ لوگوں کی اموات امراض قلب اور کینسر کی بیماریوں سے ہوتی ہیں۔

انہوں نے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ اور صوبائی حکومت کو پشاور کارڈیک انسٹیٹیوٹ کی تکمیل پر مبارکباد دی اور کہا کہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت میں امراض قلب کے ادارے کا نہ ہونا بہت بڑا ظلم تھا۔

ان کاکہنا تھا کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں امراض قلب کے شعبے کی صورتحال بہت بری تھی اور وہاں شرح اموات خاصی بلند تھی جس کی وجہ سے اسے بند کرنا پڑا اس وجہ سے ایک خصوصی کاڑدیک انسٹیٹیوٹ کی بہت ضرورت تھی۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس ادارے کی تعمیر کا منصوبہ کافی پہلے بنایا گیا تھا لیکن فنڈز اور وسائل کی کمی تھی اور اب جب کہ کورونا وبا پھیلی ہوئی ہے اس دوران ان فنڈز کو تلاش کر کے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے پر میں صوبائی حکومت کو مبارکباد دیتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی حکومت کے دو سال، اہم منصوبے، ’تاریخی‘ اقدامات!

عمران خان نے کہا یہ ہسپتال نہ صرف سارے صوبے کے لیے مفید ہوگا بلکہ ایسی کوئی سہولت اس علاقے میں نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان سے بھی مریض یہاں علاج کروانے آئیں گے۔

ہیلتھ کارڈ سے ملک کے نظام صحت میں انقلاب لے آئے

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے پورے صوبے کے عوام کو ہیلتھ انشورنش فراہم کرنے کے فیصلے پر انہیں سب سے زیادہ خراج تحسین پیش کرتا ہوں، اس سے بڑی نعمت کسی قوم بالخصوص غریب طبقے کے لیے نہیں ہوسکتی۔

وزیراعظم نے کہا کہ کسی غریب گھر میں کسی کو کوئی بیماری ہو تو وہ پورا گھرانہ غربت کی لکیر سے نیچے چلاجاتا ہے جس پر آج تک کسی حکومت نے نہیں سوچا تھا، ایک ایسا ملک جہاں اشرافیہ، وزیراعظم، وزرا علاج کے لیے باہر چلے جاتے ہیں وہ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اگر کسی عام آدمی کے گھر میں مشکل وقت یا بیماری ہو تو وہ کیا کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگ بار بار کہتے ہیں کہ ریاست مدینہ کہاں ہے تو یہ قدم ریاست مدینہ کی جانب ہے، اُس ریاست میں دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ریاست نے کمزور طبقے کی ذمہ داری لی تھی جس کے لیے انہوں نے صرف اپنی ذہنیت تبدیل کی تھی باقی تو اللہ کرتا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ دنیا کی پہلی فلاحی ریاست نبی کریم ﷺ نے بنائی تھی، ان کے پاس بھی وسائل نہیں تھے۔

مزید پڑھیں: عالمی وبا میں ڈاکٹرز، ہیلتھ کیئر اسٹاف ہمارا اول دستہ ہے، وزیراعظم عمران خان

ان کا کہنا تھا کہ آج صوبائی حکومت نے صوبے کے تمام شہریوں کو ہیلتھ انشورنس دینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ہم سے کہیں زیادہ امیر ممالک تک میں عوام کو یونیورسل ہیلتھ کوریج نہیں دی گئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس اقدام سے ہر غریب گھرانے کو یہ اعتماد حاصل ہوگا کہ کسی بیماری کی صورت میں ان کے پاس ہیلتھ کارڈ ہے دوسرا شاید آپ کو بھی اندازہ نہیں کہ آپ صحت کے معاملے میں پاکستان میں انقلاب لے آئے ہیں اس سے آپ کا پورا نظام صحت اٹھ کھڑا ہوگا۔

ہسپتال اصلاحات کا مطلب نجکاری نہیں

پمز ملازمین کی ہڑتال کے اعلان پر انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں کی اصلاحات کا صرف یہ مقصد ہے کہ سرکاری ہسپتال بھی نجی ہسپتالوں کی طرح کام کریں جہاں سزا اور جزا ہوتی اسی لیے وہ کامیاب بھی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہسپتال اصلاحات کا مقصد ایک بورڈ تشکیل دینا ہے جو اسے نجی ہسپتال کی طرح چلائے اس کا مطلب نجکاری نہیں ہے۔

سانحہ آرمی پبلک اسکول نے پوری قوم کو متحد کیا

سانحہ آرمی پبلک کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اس سانحے نے دکھ میں قوم کو متحد کیا جس کے بعد قوم نے فیصلہ کیا کہ سب مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں گے۔

اور اس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کو شکست دی گئی اور اب ملک کے حالات ان حالات سے بالکل مختلف ہیں جو 16 دسمبر 2014 سے پہلے تھے۔

ہم نے اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے پوری طرح استفادہ ہی نہیں کیا

دوسری جانب انہوں نے پشاور میں کامیاب جوان پروگرام کی تقریب میں نوجوانوں میں چیک تقسیم کرنے کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لیکن نوجوانوں کے لیے مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ آئیڈیا ہوتا ہے پیسے نہیں ہوتے اور بدقسمتی سے کبھی کسی نے چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کی جانب توجہ ہی نہیں دی اور اس وجہ سے دنیا کا وہ ملک جہاں نوجوانوں کی دوسری بڑی آبادی ہے وہ اس کو درست طریقے سے استعمال نہیں کرسکا۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہ کامیاب نوجوان کا منصوبہ چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے بارے میں ہے جو آئیڈیا سے چلتی ہیں جو ترقی کرتا ہے تو دنیا آگے بڑھتی ہے ابھی اس کی شروعات ہے کیوں کہ ابھی تک مسئلہ یہ تھا کہ بینکوں کو نوجوانوں کو پیسے دینے کی عادت نہیں تھی، ایسا نظام ہی نہیں تھا، نواجوانوں کی مدد کرنے کی روایت ہی چلی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کی سیلیکون ویلی نے ملک کو اور آئی ٹی کی صنعت کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، وہاں 20، 25 سال کے نوجوان تھے جو آئیڈیاز لے کر آتے تھے، اس کے لیے پیسہ اکٹھا ہوجاتا تھا اس آئیڈیے کی معاونت کے لیے پورا نظام موجود تھا اور وہ دیکھتے دیکھتے دنیا کے سب سے بڑے آدمی بن گئے اور امریکا میں بھی دولت کی پیداوار میں اضافہ کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ابھی شروعات ہے اور کرکٹ کی وجہ سے پہلے بھی اور اب بھی میرا بیرونِ ملک پاکستانیوں سے رابطہ رہا ہے اور آپ کو یہ دیکھ کر خوشی ہوگی کہ نئے نوجوان آئیڈیا لے کر آئے انہیں نظام نے معاونت کی اور کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لیکن ہم ابھی تک اپنے ملک کی صلاحیت سے پوری طرح استفادہ نہیں کرسکے، لیکن صوبہ پختونخوا میں سب سے تیزی سے میں سیاحت کا کاروبار بڑھتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: کامیاب جوان پروگرام کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے کا فیصلہ، 25 ارب روپے جاری

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں جو علاقے ہیں جہاں گرمی میں پورے پاکستان سے لوگ آتے ہیں اور میری پیش گوئی ہے کہ چند سالوں میں موسم سرما کے دوران اسکنگ پاکستان میں بہت بڑی چیز بن جائے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسکنگ سے سوئٹزر لینڈ میں ہر سال تقریباً 80 ارب ڈالر کی آمدن ہوتی ہے جبکہ سوئٹزر لینڈ پاکستان کے پہاڑی علاقوں کا آدھا بھی نہیں ہے

وزیراعظم نے کہا کہ یہ ہمارا بہت بڑا ذریعہ ہے اور ہم اپنی سیاحت کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے نوجوانوں کو استعمال کریں گے اور وہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت ہے جو دنیا میں سب سے تیزی سے فروغ پا رہی ہے اور اس میں اپنے نوجوانوں کی پوری مدد کرنی ہے جو سارا آئیڈیا کا کھیل ہے۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ اگر کسی کے پاس آئیڈیا ہو تو ایسا نظام قائم کرنا حکومت کا کام ہے کہ بینک ایسے لوگوں کو مدعو کریں ان کے آئیڈیاز سنیں اور ان کی معاونت کریں اسی طرح دنیا آگے بڑھتی ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم نے 'کامیاب جوان پروگرام' کا افتتاح کردیا

وزیراعظم نے کہا کہ ان منصوبوں کی کامیابی میں بینکوں کا بڑا کردار ہے اور مجھے اُمید ہے کہ جیسے جیسے اس پروگرام میں توسیع ہوگی اس میں دیگر بینکس بھی شمولیت اختیار کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی وزیرستان کے علاقے پیچھے رہ گئے ہیں جبکہ وہاں بھی نوجوانوں کی بڑی آبادی بے روزگار ہے اور خوشی کی بات ہے کہ لائیو اسٹاک کی جانب لوگ متوجہ ہورہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ چنانچہ جب نوجوان لائیو اسٹاک کے شعبے میں آئیں گے اور سائنسی بنیادوں پر اسے چلائیں گے اور دودھ کی پیداوار کو اگر دگنا بھی کرلیا جائے تو ہماری آبادی کا کتنا فائدہ ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں