کوئٹہ: ڈی آئی جی سمیت 38 پولیس اہلکار ہلاک
کوئٹہ: کل بروز جمعرات 8 جولائی کو رونما ہونے والا دہشت گردی کا ایک المناک واقعہ جس میں ایک تنہا خودکش بمبار پولیس لائنز کے رہائشی کمپاؤنڈ جو شہر کی پولیس کے لیے مخصوص ہے، سخت سیکیورٹی اور حفاظتی حصار کے باجود اندر داخل ہوکر خود کو دھماکے سے اُڑادیا، جس کی وجہ سے بلوچستان پولیس فورس کا بدترین سانحہ رونما ہوا۔
ایک سینیئر پولیس آفیسر محمد طارق نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ”تقریباً 38 افراد اس حملے میں ہلاک اور 50 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر پولیس اہلکارہیں۔“ ایک دوسرے پولیس آفیسر نے بھی ہلاکتوں کی اس تعداد کی تصدیق کی، اگرچہ اعلیٰ سطح کے دو حکام کا کہنا ہے کہ تقریباً تیس افراد اس حملے میں ہلاک ہوئے ہیں۔
ڈان اخبار کے نمائندے سلیم شاہد کے مطابق رات گئے کالعدم تحریک طالبان نے اس خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔
اے ایف پی کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اپنے ایک بیان میں کوئٹہ کے خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ حملہ ہماری طرف سے تھا اور ہم جلد ہی ایک بڑا حملہ آنے والے دنوں میں کریں گے۔“
پاکستانی حکام عید کی چھٹیوں کے دوران حملوں کے خطرات کے لیے الرٹ ہیں، جو اتوار تک جاری رہیں گی۔
اے ایف پی کے مطابق طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا کہ یہ حملہ امریکی ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کا بدلہ لینے کے لیے کیا گیا۔ ڈرون حملوں میں افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے شمال میں پاکستان کے آزاد قبائلی علاقوں کے اندر طالبان اور القاعدہ کے دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
شاہد اللہ شاہد نے کہا کہ ”ہم پولیس اور دیگر سیکیورٹی ایجنسیز کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں، وہ ہم پر حملہ کررہی ہیں اور ہم انہیں نشانہ بنارہے ہیں۔“
انہوں نے کہا کہ ”کہیں بھی اور کسی بھی وقت ہمیں جب بھی موقع ملے گا ہم سیکیورٹی فورسز، سرکاری حکام اور پولیس کو نشانہ بنائیں گے۔“
یہ سانحہ جس کمپاؤنڈ میں رونما ہوا اس میں درحقیقت پولیس حکام کو نشانہ بنایا گیا تھا، جو ایک مسجد کے قریب ایک انتہائی سیکیورٹی والے علاقے میں کوئٹہ کے ایس ایچ او محب اللہ کی نمازِ جنازہ ادا کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ محب اللہ دوی کو کل صبح ہی کلی عالمو کے علاقے میں نامعلوم حملہ آوروں نے ایئرپورٹ روڈ کے قریب گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ محب اللہ دَوی کو اس وقت گولیاں ماری گئیں جب وہ اپنے چار بچوں کے ساتھ عید کی خریداری میں مصروف تھے۔ اُن کے دو بچے اور ایک سیکیورٹی گارڈ بھی زخمی ہوگئے۔
آئی جی پولیس بلوچستان نے کہا ہے کہ اس بزدلانہ حملے کے باوجود بلوچستان کی پولیس فورس دہشت گردوں کو گرفتار کرنے یا ان کے خاتمے کا مشن کوئٹہ سمیت پورے صوبے میں جاری رکھے گی۔
بعد میں اہلکاروں نے بتایا کہ بہت سے ایسے لوگ بھی اس دہشت گردانہ حملے میں ہلاک یا زخمی ہوئے جن کا پولیس فورس سے تعلق رہا تھا۔
یہ سانحہ جب رونما ہوا تو اس وقت وہ جگہ مکمل طور پر کوئٹہ پولیس کے اہلکاروں سے بھری ہوئی تھی۔ درجنوں سیکیورٹی اہلکار بھاری اسلحہ سے لیس اس جگہ کی حفاظت کررہے تھے، سینکڑوں پولیس اہلکارنے نے مسجد کے قریب نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے لیے صف بنانا شروع کردی تھی۔
یہ پولیس اہلکار اپنے ایک ساتھی کی المناک موت سے غمزدہ تھے اور آئی جی پولیس کی آمد کے منتظر تھے کہ اسی وقت ایک طاقتور دھماکے نے چاروں طرف خوف وہراس کی لہر دوڑا دی۔
اس کمپاؤنڈ کے داخلی راستے کے قریب ایک نامعلوم خودکش بمبار نے اپنے جسم سے بندھے ہوئے دھماکہ خیز مواد کو اس جگہ کے قریب دھماکے سے اُڑا دیا، جہاں سینیئر پولیس حکام نمازِ جنازہ کے شروع ہونے کا انتظار کررہے تھے۔ ڈی آئی جی آپریشنل فیاض سنبل اور درجنوں دیگر افسران براہ راست اس حملے کا نشانہ بنے۔ خودکش بمبار کے جسم سے بندھے ہوئے دھماکہ خیز مواد میں شامل چھرّے اور دیگر دھاتی اشیاء نے ان کے جسموں کو گولی کی رفتار سے نشانہ بنایا۔
پولیس اہلکار نے بتایا ”یہ ایک خوکش حملہ تھا۔ دھماکہ کی جگہ سے 200 گز کے فاصلے پر خود کش بمبار کا سر مل گیا ہے۔ اس طاقتور دھماکے کی آواز پورے شہر میں سنی گئی تھی۔“
جس وقت دھماکہ ہوا کوئٹہ پولیس کے چیف میر زبیر محمود دیگر افسران کے ہمراہ مسجد کے اندر موجود تھے، وہ اس حملے میں محفوظ رہے۔
بلوچستان پولیس کے انسپکٹر جنرل مشتاق سکھیرا نے سی سی پی او آفس میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم دہشت گردوں کی کاروائیوں سے خوفزدہ ہوکر ان کے سامنے نہیں جھکیں بلکہ ان کو ختم کرنے کے لیے اپنی لڑائی جاری رکھیں گے۔ دہشت گردوں سے قوم کو محفوظ رکھنے کے لیے پولیس فورس نے بہت قربانیاں دی ہیں، اور ہم قربانی دیتے رہیں گے۔ قوم کو متحد ہوکر دہشت گردی کا مقابلہ کرنا چاہئیے۔“
آئی جی مشتاق سکھیرا 12 مئی کو ریڈزون میں واقع اپنی سرکاری رہائشگاہ پر ہوئے بم حملے میں محفوظ رہے تھے۔
ذرائع کے مطابق مسجد کے قریب تعینات پولیس اہلکاروں نے اُس نوعمر بمبار کو روکا تھا، جب وہ داخلی راستے سے اندر جانے کی کوشش کررہا تھا۔لیکن پولیس اہلکار جیسے ہی اس کی تلاشی لینے لگے تو اُس نے خود کو دھماکے سے اُڑا دیا۔
ایک سینیئر پولیس آفیسر نے ڈان کو بتایا کہ ”ڈی آئی جی فیاض احمد سنبل دوسرے افسران کے ساتھ زخمی ہوگئے تھے، انہیں سی ایم ایچ لے جایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔“
ہلاک ہونے والے دیگر افسران میں جن کی شناخت کرلی گئی تھی، ان میں ایس پی ٹریفک محمد انور خلجی، ڈی ایس پی خالق داد، ڈی ایس پی پولیس لائنز شمس الرحمان، حضرت علی، خالد محمود، محمد عاررف، غلام علی، احسان اللہ، شکیل انور، عطاءاللہ، محمود، غلام حسین، محمدعلی، اجمل ترین، منصور احمد، سید نادر، عامر منیر اور ناظم جان شامل ہیں۔
ہلاک ہونے والے دس افراد کی شناخت نہیں کی جاسکی ہے۔
ایک ہسپتال کے ڈاکٹر سرور شاہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ پولیس ہیڈکوارٹرز کی مسجد کے پیش امام کا بیٹا بھی اس دھماکے میں ہلاک ہوا ہے۔
ایک اور سینیئر آفیسر عبدالصبور نے ڈان کو بتایا کہ ”دھماکہ اس وقت ہوا جب نمازِ جنازہ شروع ہی ہونے والی تھی۔لوگ نمازِ جنازہ کے لیے صفیں بنارہے تھے کہ مرکزی دروازے پر جہاں واک تھرو گیٹ نصب کیا گیا تھا، خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اُڑا دیا۔“
دھماکہ ہوتے ہی بارود اور جلے ہوئے گوشت کی بُو چاروں طرف پھیل گئی، انسانی اعضاء اور گوشت چاروں طرف بکھرے ہوئے تھے۔ چاروں طرف پھیلے ہوئے خون اور جسمانی اعضاء کے درمیان کچھ پولیس اہلکار روتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو تلاش کررہے تھے، کچھ بکھرے ہوئے جوتوں اور دیگر سامان کے درمیان صدمے کی وجہ سے سکتے کی کیفیت میں بیٹھے تھے۔
بم ڈسپوزل اسکواڈ کے ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ ”تقریباً 10 کلوگرام کے دھماکے خیز مواد میں بال بیئرنگ اور شارپنل(گولیوں سے بھرا ہوا گولہ) استعمال کیا گیا تھا۔“
پولیس آفیسر زبیر محمود بھی اس جگہ موجود تھے جہاں دھماکہ ہوا، انہوں نے کہا ”یہ بہت بڑا سانحہ ہے، جس میں میں نے اپنے بہت سے ساتھیوں کو کھو دیا۔“
بلوچستان کے چیف سیکریٹری بابر یعقوب محمد نے کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے، اس لیے کہ بہت سے زخمیوں کی حالت بہت نازک ہے۔ انہوں نے کہا کہ شدید زخمیوں کو کراچی منتقل کیا جاسکتا ہے۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق آئی جی مشتاق سکھیرا نے کہاہے کہ ہلاک ہونے والے افراد کی 30 لاشوں میں سے 21 پولیس اہلکاروں کی ہیں۔
ڈان کے نمائندے سلیم شاہد کی رپورٹ کے مطابق آئی جی بلوچستان مشتاق سکھیرا نے کہا ”جو لوگ دہشت گردی کی اس کارروائی کے ذمہ دار ہیں انہیں مسلمان نہیں کہا جاسکتا، اور نہ ہی وہ انسان کہلانے کے مستحق ہیں۔ اس طرح کے حملے پولیس فورس کا حوصلہ کم نہیں کرسکتے۔دہشت گردوں نے ماؤں سے ان کے بیٹے، بیٹوں اور بیٹیوں سے ان کے والد، بہنوں سے اُن کے بھائی ، اور بیویوں سے اُن کے شوہر چھین لیے ہیں۔“
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”ہم چھان بین کررہے ہیں کہ خودکش جیکٹ پہنے ہوئے بمبار پولیس لائنز پہنچنے میں کیسے کامیاب ہوگیا۔“
ہلاک ہونے والے تمام پولیس افسران کی نمازِ جنازہ پولیس لائنز میں کل شام کو ادا کی گئی، جس میں آئی جی بلوچستان مشتاق سکھیرا سمیت دیگر سینیئر آفیسرز نے شرکت کی۔
اے ایف پی کے مطابق کوئٹہ شہر میں پولیس ہیڈکوارٹرز پر خودکش بمبار کے ذریعے یہ حملہ ان خدشات میں اضافہ کررہا ہے کہ نومنتخب حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اپنے ہلاکت خیز چیلنجوں میں اضافہ کردیا ہے۔
وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف نے وزارتِ داخلہ سے اس سانحے کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ متاثرین اور لواحقین کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔
گورنر بلوچستان محمود خان اچکزئی، وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، سینیئر وزیر سردار ثناءاللہ زہری اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے اس خودکش حملے کی سختی سے مذمت کی ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے غمزدہ خاندانوں کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس غیر انسانی کارروائی میں جو بھی عناصر ملوث ہیں انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
تبصرے (4) بند ہیں